کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 175
امابعد! مجھے بغیر مجھ سے مشورہ لیے اور بغیر میرے ارادہ کے جس کو اللہ جانتا ہے، امت مسلمہ کے اس امر میں مبتلا کر دیا گیا ہے۔پس جب میرا یہ خط تم تک پہنچے تو مجھے اہل قبلہ اور ذمیوں کے بارے میں سیّدناعمر بن خطاب کی سیرت لکھ بھیجنا کہ میں ان کی سیرت پر چلنا چاہتا ہوں … …والسلام!‘‘ [1] عون بن عبداللہ کہتے ہیں :’’ مجھ سے عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے کہا کہ ’’کیا تمہارے نزدیک حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ دونوں عادل ہیں ؟ میں نے عرض کیا جی ہاں تو فرمایا۔ تو (پھر سنو!) وہ دونوں حضرات یہ تکبیر نہ پڑھا کرتے تھے۔‘‘[2] ازہری کہتے ہیں کہ ’’ایک آدمی نے عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ سے پوچھا کہ میں نے نشہ کی حالت میں بیوی کو طلاق دے دی ہے۔‘‘ زہری کہتے ہیں کہ ’’آپ کی رائے یہ تھی کہ اس نشہ والے کو کوڑے مار کر اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان تفریق کر دی جائے۔ اتنے میں حضرت ابان بن عثمان رضی اللہ عنہ نے (اپنے والد حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے ) یہ حدیث بیان کی کہ دیوانے اور نشہ والے کی طلاق واقع نہیں ہوتی۔‘‘ تب آپ نے لوگوں سے پوچھا: بتلائو مجھے کیا رائے دیتے ہو، یہ صاحب مجھے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے حدیث سنا رہے ہیں ؟ پس آپ نے (حضرت عثمان کے قول کی روشنی میں ) اس شخص کو (شراب کی وجہ سے ) کوڑے لگانے کا حکم دیا اور اس کی بیوی اسے واپس کردی۔[3] سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت خلفائے راشدین مہدیین کی سنت کو لازم پکڑتے تھے، چنانچہ آپ نے اپنے دور خلافت میں خلافت راشدہ کے آثار وعلامات کو از سر نوزندہ اور تازہ کیا، ان کی سنت پر چلے اس کو دانتوں اور کچلیوں سے مضبوطی کے ساتھ تھاما۔ نزاع کے وقت ان کے اقوال کی طرف رجوع کیا اور اہل قبلہ اور ذمیوں پر اقوال خلفائے راشدین کے ساتھ حکم لگایا، اسی طرح عبادات ومعاملات میں ان حضرات کی سنتوں کو لیا۔ آپ سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اقوال کو زیادہ اہتمام کے ساتھ لیتے تھے اور ان کی سنتوں کے لینے کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت لینے کے برابر سمجھتے تھے۔ جیساکہ خلیفہ ثالث سیّدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے قول کو سنتے ہی فوراً اس کو لیے لیا اور اس کے مطابق فیصلہ صادر فرمایا۔ اور خوارج کے معاملہ میں آپ نے خلیفہ چہارم سیّدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی سنت کو اپنایا۔ چنانچہ آپ نے خوارج کے ساتھ مناظرہ کیا، ان کے ساتھ خط وکتابت کی لیکن جب وہ لوگ اپنی ہٹ سے
[1] سیرۃ عمرلابن الجوزی،ص: ۱۰۸ [2] مصنف عبدالرزاق:۲/۶۶ [3] مصنف عبدالرزاق: ۴/۳۱