کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 174
ہے، جس نے ان سے نصرت حاصل کی منصور ومظفر وہ ہے اور جس نے ان سنتوں کو چھوڑ کر اہل ایمان کے رستے کے علاوہ کوئی دوسرا اختیار کیا اللہ اسے ادھر ہی جانے دے گا جدھر کا وہ رخ کیے جارہا ہے اور اسے (مرنے بعد) دوزخ میں ڈالے گا۔ اور دوزخ بہت برا ٹھکاناہے۔[1] یہ جملہ آثار بتلاتے ہیں کہ سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کتاب وسنت کا بے حد اتباع اور التزام کیاکرتے تھے اور اس رستے میں اور ان کی تطبیق میں اپنی پوری ہمت او رطاقت خرچ کردیتے تھے حتی کہ آپ اس رستے میں اپنے بدن کے ٹکڑے تک کروانے کے لیے اور جان تک دینے کے لیے ہر وقت مستعد وتیار رہتے تھے۔ سیّدنا عمر رحمہ اللہ نے جو رستے اختیار کیایہی دین کی اصل واساس ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : {فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَاشَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لَایَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا} (النساء: ۶۵) ’’پس نہیں ! تیرے رب کی قسم ہے! وہ مومن نہیں ہوں گے، یہاں تک کہ تجھے اس میں فیصلہ کرنے والا مان لیں جو ان کے درمیان جھگڑا پڑ جائے، پھر اپنے دلوں میں اس سے کوئی تنگی محسوس نہ کریں جو تو فیصلہ کرے اور تسلیم کرلیں ، پوری طرح تسلیم کرنا۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبار ک ہے ’’اے لوگو! میں تم لوگوں میں ایک ایسی بات چھوڑ کر جارہا ہوں کہ اگر تم نے اس کو مضبوطی سے پکڑ لیا تو کبھی گمراہ نہ ہوگے (اور وہ بات ) اللہ کی کتاب اور میری سنت (ہے)۔‘‘ [2] ۲۔ سنت خلفائے راشدین سے اعتصام: حاجب بن خلیفہ برجمی کہتے ہیں : میں سیّدنا عمر رحمہ اللہ کے پاس تھا جب آپ نے ایک خطبہ دیا اس وقت آپ خلیفہ بن چکے تھے۔ چنانچہ آپ نے اپنے خطبہ میں ارشاد فرمایا: ’’خبردار غور سے سن لوکہ جو باتیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کے دو ساتھیوں (خلیفہ رسول سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور امیر المومنین سیّدنا عمربن خطاب رضی اللہ عنہ ) نے سنت قرار دی ہیں ، وہی دین ہے، ہم اسی کو لیتے ہیں اور اس تک بس کر دیتے ہیں اور جو بات ان دونوں کے علاوہ نے سنت قراردی ہے ہم اس کومؤخر کرتے ہیں ۔[3] آپ نے حضرت سالم بن عبدللہ بن عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کو لکھا: ’’عمر بن عبدالعزیز کی طرف سے سالم بن عبدللہ کو یہ خط:
[1] سیرۃ عمر لابن عبدالحکم، ص: ۴۰ [2] مؤطا مالک: ۳/۹۳ [3] الحلیۃ:۵/۲۹۸