کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 173
دیکھیں گے۔ اللہ کی قسم! اللہ نے انہیں ایسی کوئی چیز نہیں عطا فرمائی جو انہیں اپنے پروردگار کی طرف دیکھنے سے زیادہ محبوب ہو۔[1]
۷…کتاب وسنت اور خلفائے راشدین
کی سنت کو لازم پکڑنا
۱۔ کتاب وسنت کا اتباع:
خلیفہ بننے کے بعد آپ نے اپنے والیوں کو یہ لکھ بھیجا: ’’امابعد! میں تم لوگوں کو اللہ کے تقویٰ کی، اس کی کتاب کو لازم پکڑنے کی اور اس کے پیغمبر کی سنت وسیرت کی اقتداء کرنے کی وصیت کرتاہوں ۔‘‘[2] کتاب وسنت میں جو بھی امر ہے، میں دیکھتا ہوں کہ اس کا نفاذ اور اس پر مجاہدہ لازم ہے۔‘‘[3]… امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں میرے جی میں یہ بات ہے کہ تم لوگ کتاب اللہ اور اللہ کے پیغمبر کی سنت کی اتباع کرو اور خواہشات اور زیغ وضلال کی طرف مائل ہونے سے بچو، پس جس نے کتاب وسنت کو چھوڑ کر عمل کیا اس کو دنیا و آخرت میں کوئی رفعت و کرامت نہ ملے گی۔ اور جس کو بھی یہ بات یاد دلائی جارہی ہے وہ اس کو عنقریب جان لے گا۔ میری عمر کی قسم مجھے اپنا مرجانااس بات سے زیادہ محبوب ہے کہ میں لوگوں کو کتاب و سنت کے غیر پر چلائوں ، پس جو سنت پر زندہ رہا سو رہا اور جو اسی سنت پر مرگیا سومرگیا۔ ہاں میں اس بات کا بے حد حریص ہوں کہ لوگوں کو سنت پر چلائوں اور اس کی اتباع کروں اور جو خلاف سنت چلنا چاہتا میرے نزدیک اس کاہلاک ہوجانا اور اس پر غم کرنا سب سے زیادہ بے قیمت ہے۔[4]
اور فرمایا بے شک اللہ نے چند فرائض اور سنتیں مقرر کی ہیں ۔ پس جوان کو اختیار کرے گا وہ نجات پاجائے گا۔ اور جو ان کو ترک کرے گا وہ مٹا دیا جائے گا۔[5] اور فرمایا، ’’کاش میں تمہیں کتا ب اللہ پر چلاتا اور چاہے اس کے بدلے میرا ایک ایک عضو کاٹ دیا جاتا حتی کہ میری روح پرواز کر جاتی۔[6]
آپ نے خوارج کو لکھا: ’’میں تمہیں کتاب اللہ اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی طرف بلاتا ہوں ۔‘‘[7]
آپ کا یہ بھی ارشاد ہے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم نے چند سنتیں مقرر فرمائی ہیں ۔ ان کو لینا یہ کتاب اللہ سے اعتصام ہے اور اللہ کے دین کو قوی کرنا ہے۔ ان سنتوں میں تغیرو تبدیلی کا حق کسی کو نہیں اور نہ ان کی مخالفت کی گنجائش ہے جس نے ان سے ہدایت پکڑی ہدایت پروہ
[1] صحیح مسلم،رقم: ۲۹۷
[2] سیرۃ عمر لابن عبدالحکم،ص:۶۵
[3] سیرۃ عمر لابن عبدالحکم،ص:۶۸
[4] سیرۃ عمر لابن عبدالحکم،ص:۷۱
[5] سیرۃ عمر لابن عبدالحکم، ص: ۳۹
[6] سیرۃ عمر لابن عبدالحکم،ص:۱۳۰
[7] الآثار الواردۃ:۲/۶۰۲