کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 172
جاتا ہے : یہ ہے تیرا(اصلی) ٹھکانا یہاں تک کہ اللہ تجھے روز قیامت اٹْھائے گا(اور پھر ادھر جا پہنچائے گا)۔‘‘ [1]
۷۔ مومنوں کا جنت میں اپنے رب کا دیدار کرنا:
سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے ایک امیر لشکر کو لکھا:
’’اما بعد! میں تمہیں اللہ کا تقوی اختیار کرنے کی، اس کے امر کو مضبوطی کے ساتھ تھا منے کی اور اس دین کی رعایت کی جس پر اللہ نے تمہیں ابھارا ہے اور اس کی اس کتاب کی رعایت کی وصیت کرتا ہوں جس کی حفاطت کا اس نے تم سے مطالبہ کیا ہے۔ بے شک تقویٰ سے اس کے اولیاء اس کی ناراضی سے نجات پاتے ہیں اور اسی تقویٰ سے ان کی ولایت ثابت ہوتی ہے اور اسی تقوی سے وہ اپنے پیغمبروں کی موافقت کرتے ہیں اسی تقویٰ سے ان کے چہرے روشن اور سرسبز ہوتے ہیں اوروہ اپنے خالق کو (عالم آخرت میں ) دیکھیں گے۔‘‘[2]
سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کایہ عقیدہ تھا کہ جنت میں رب تعالیٰ کی زیارت ہوگی۔ یہ تو فیق وہدایت کے بعد سب سے بڑی نعمت ہے اس دن مومنوں کا حال کیا ہوگا اس کو رب تعالیٰ اس آیت میں بیان فرماتے ہیں :
{وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ o اِِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ } (القیامہ:۲۲۔۲۳)
’’اس دن بہت سے منہ رونق دار ہوں گے (اور ) اپنے پروردگار کے محودیدار ہوں گے۔‘‘
اور فرمایا:
{لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰی وَ زِیَادَۃٌ } (یونس:۲۶)
’’جن لوگوں نے نیکوکاری کی ان کے لیے بھلائی ہے اور مزید(برآں ) اور بھی۔‘‘
حضرت صہیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کے بارے میں پوچھا گیا {لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰی وَ زِیَادَۃٌ } (یونس: ۲۶) کہ اس آیت میں ’’وزیادۃ ‘‘ سے کیا مراد ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ جب جنت والے جنت میں اور دوزخ والے دوزخ میں داخل ہوجائیں گے تو ایک ندا کر نے والا ندا کرے گا: ’’اے جنت والو! بے شک اللہ کاتم سے ایک وعدہ ہے جو وہ تمہارے ساتھ پورا کرنا چاہتا ہے، وہ بولیں گے کیا ہمارے چہرے سفید (اور روشن) نہیں کر دیئے گئے اور ہمارے وزن بھاری نہیں کیے گئے اورہمیں دوزخ سے بچا نہیں لیا گیا۔ (تو بھلا اب وہ کون سا وعدہ ہے جو پورا کر نا باقی ہے)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’پس (پھر) حجاب ہٹا دیا جائے گا اور وہ اللہ کی طرف (عیانا)‘‘
[1] صحیح مسلم،رقم:۲۸۶۶
[2] الرد علی الجہمیۃ للدارمی،ص:۱۰۳