کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 171
تکالیف فقر اور آزمائشیں کچھ نقصان نہ دیں گی۔ اور جو بندہ اللہ کی ناراضی اور جہنم میں چلا گیا اسے دنیا کی نعمتیں اور آسودگیاں کچھ نفع نہ دیں گی۔ اہل جنت کو جنت میں جاکر دنیا میں پہنچنے والی تکلیف کا احساس تک نہ ہوگا۔ اور اہل جہنم کو جہنم میں جاکر دنیا کی لذتوں اورحلاوتوں کاکوئی اثر محسوس نہ ہوگا جو وہ دنیا میں پاتے رہتے تھے۔غرض دنیاکی لذت یا تکلیف میں سے آخرت میں کچھ بھی نہ ہوگا۔‘‘[1] فضل بن ربیع کہتے ہیں : ’’ میں نے فضل بن عیاض کو سنا وہ کہتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے ایک عامل نے انہیں شکایت لکھ بھیجی تو آپ نے اسے یہ (تسلی بخش) جو اب لکھا: اے میرے بھائی! ذرا اہل جہنم کے بے حد طویل جاگنے کو یاد کر (کہ انہیں آرام کرنے کو صدیوں تک مہلت نہ دی جائے گی) پھر (اس کے ساتھ) جہنم کے ابدی ہونے کو (بھی یاد کر) اور اس بات سے بچنا کہ تو (روز قیامت) اللہ کے پاس سے لوٹنے والا آخری ہوجس کی امید (مغفرت) بھی ختم ہوچکی ہو۔‘‘ اس عامل نے جب یہ خط پڑھا تو سب کچھ چھوڑ چھاڑ منزلوں پہ منزلیں مارتا حاضر خدمت ہوگیا۔ آپ نے آنے کی وجہ پوچھی تو بولا: آپ کا خط پڑھ کر میں نے ولایت و امارت کی تمنا سے دل خالی کر لیا ہے میں نے عہد کر لیا ہے کہ اب میں مرتے دم تک ولایت قبول نہ کروں گا۔‘‘ [2] جنت اور دوزخ کے بارے میں سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا عقیدہ وہی تھا جو کتاب وسنت میں آتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : {اِِنَّ الْاَبْرَارَ لَفِیْ نَعِیْمٍ } (الانفطار:۱۳) ’’بے شک نیکوکار نعمتوں (کی بہشت ) میں ہوں گے۔‘‘ اور فرمایا: {وَ مَنْ یَّاْتِہٖ مُؤْمِنًا قَدْ عَمِلَ الصّٰلِحٰتِ فَاُولٰٓئِکَ لَہُمُ الدَّرَجٰتُ الْعُلٰیo جَنّٰتُ عَدْنٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا وَ ذٰلِکَ جَزٰٓؤُا مَنْ تَزَکّٰی } (طٰہ:۷۵۔۷۶) ’’اور جو اس کے پاس مومن بن کر آئے گا کہ اس نے اچھے اعمال کیے ہوں گے تو یہی لوگ ہیں جن کے لیے سب سے بلند درجے ہیں ۔ہمیشگی کے باغات، جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں ، ان میں ہمیشہ رہنے والے اور یہ اس کی جزا ہے جو پاک ہوا۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ’’تم میں سے جو بھی مرجاتا ہے تو (عالمِ برزخ میں ) اس پر صبح و شام اس کا ٹھکانا پیش کیا جاتا ہے۔ پس جو جنت والوں میں سے ہوتا ہے اسے (اس کا ) جنت والوں کا (ٹھکانا دکھایا جاتا ہے) اگر وہ جہنم والوں میں سے ہو تو (اسے) جہنم والوں میں سے (اس کا ٹھکانا دکھایا جاتا ہے) او رکہا
[1] سیرۃ عمر،ص:۲۵۰۔۲۵۱ [2] سیرۃ عمرلابن الجوزی،ص:۱۲۴۔۱۲۵