کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 170
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ جہنم پر سے گزرنا اس میں دخول کو مستلزم نہیں (کہ جوبھی جہنم پر سے گزرے گا اس پر جہنم میں گرنا لازم بھی ہوگا۔ یہ ضروری نہیں ) اور یہ کہ شر سے نجات شرکے حصول کو مستلزم نہیں (یعنی یہ لازم نہیں کہ شرسے نجات اسی کو ملے گی جو پہلے شر میں مبتلا بھی ہو)۔ پس اہل ایمان جہنم کی پیٹھ پر بچھے صراط پر سے آتش جہنم کے اوپر سے گزریں گے۔ پھر رب تعالیٰ اہل ایمان کو جہنم سے نجات دے دے گا (اور وہ جہنم میں داخل ہوئے یا اس میں گرے بغیر سلامت باکرامت گزر جائیں گے) اور رب تعالیٰ ظالموں کو اس میں گھٹنوں کے بل پڑا ہوا چھوڑ دیں گے۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو واضح فرمایا کہ قرآن کریم میں جہنم پر جس ورود کا ذکر ہے اس سے مراد جہنم کی پیٹھ پر بچھے صراط پر سے ورود اور گزرنا ہے (ناکہ جہنم میں سے ہو کر گزرنا مراد ہے) [1]حق یہ ہے کہ جہنم پر سے ورود دو قسم کا ہے۔ ایک جہنمی کافروں کا ورود۔ اس کے ورودِ دخول ہونے میں کوئی شک نہیں ۔ جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: {یَقْدُمُ قَوْمَہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فَاَوْرَدَ ہُمُ النَّارَ وَ بِئْسَ الْوِرْدُ الْمَوْرُوْدُ} (ہُود:۹۸) ’’وہ قیامت کے دن اپنی قوم کے آگے ہوگا، پس انھیں پینے کے لیے آگ پر لے آئے گا اور وہ پینے کی بری جگہ ہے۔‘‘ اور ورود کی دوسری قسم مومنوں کا ورود ہے اوریہ ورودِ مرور ہے۔ یعنی یہ موحد مومنوں کا صراط پر سے گزرنا ہے۔[2] گزشتہ مذکورہ اثر میں سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی ورود سے مراد یہی دوسری قسم کاورود تھا۔ ۶۔ جنت اور جہنم: ایک دفعہ آپ روئے تو آپ کو دیکھ کر آپ کی اہلیہ بھی روپڑیں ۔ انہیں روتا دیکھ کر گھر والے بھی روپڑے۔ لیکن کسی کو آپ کے رونے کی وجہ معلوم نہ تھی۔ جب ذرا طبیعت پر ضبط ہوا تو فاطمہ نے رونے کی وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا: ’’اے فاطمہ ! مجھے وہ وقت یاد آگیا جب لوگ رب تعالیٰ کے سامنے سے لوٹیں گے پھر یا تو جنت کی طرف یا پھرجہنم کی طر ف جائیں گے۔ پھر آپ نے ایک چیخ ماری اور بے ہوش ہوگئے۔[3] سفیان کہتے ہیں کہ ’’ایک دفعہ سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ خاموش بیٹھے تھے جبکہ آپ کے ساتھی باہم گفتگو کر رہے تھے۔ اتنے میں وہ کہنے لگے کہ امیر المومنین! کیا بات ہے آپ کوئی کلام نہیں فرمارہے ؟ فرمانے لگے‘‘ میں جنت والوں کی فکر میں تھا کہ کیسے وہ لوگ ایک دوسرے کی زیارت کریں گے۔اور میں جہنم والوں میں متفکر تھا کہ وہ جہنم میں کیسے چیختے چلاتے ہوں گے۔ پھر رونے لگے۔‘‘[4] ایک فوجی کو یہ خط لکھا: ’’یاد رکھو کہ جو بندہ اللہ کی رضوان اور جنت میں چلا گیا اسے دنیا میں پہنچنے والی
[1] شرح الطحاویۃ، ص: ۴۷۱۔ [2] القیامۃ الکبری،ص: ۲۷۸ للاشقر [3] الرقۃ والبکاء،ص: ۷۶ [4] سیرۃ عمر، لابن الجوزی،ص: ۱۵۴