کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 169
کے دنیا تمہیں دھوکے میں نہ ڈال دے بے شک دنیا اس کا گھر ہے جس کا کوئی گھر نہیں اور اس کا مال ہے جس کا کوئی مال نہیں ۔‘‘[1] سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ سے مروی یہ اثر اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ صراط پر ایمان لانا واجب ہے۔ وہ یوں کہ اس سخت دن میدان قیامت سے نکلنے کے بعد لوگ صراط پر سے گزریں گے اوریہ وہ پل ہے جس کو جہنم کی پیٹھ پر بچھایا گیا ہے یہ بال سے باریک اور تلوار سے تیز ہے۔ حضرات انبیائے کرام علیہم السلام کے توحید پرست سب اولین وآخرین پیروکار اس پر آئیں گے (اور اس پر سے گزریں گے) ان میں اہل ذنوب ومعاصی بھی ہوں گے اور اہل نفاق بھی۔ ابھی یہ لوگ صراط پر چڑھیں گے نہیں کہ ان پر تاریکی کو طاری کردیا جائے گا۔ یہاں سے منافقین اہل ایمان سے جدا ہوجائیں گے اور اہل ایمان سے پیچھے رہ جائیں گے۔ جبکہ اہل ایمان منافقوں سے آگے نکل جائیں گے۔ اور ان کے درمیان ایک فصیل کھڑی کر دی جائے گیا جو منافقوں کو اہل ایمان تک پہنچنے سے روک دے گی۔ پھر ہر مومن کو اس کے عمل کے بقدر ایک روشنی عطا کی جائے گی جو ا س رستے کو روشن کرے گی جس کی مدد سے وہ صراط پر چل سکیں گے۔ پھر کوئی تو ان میں سے بجلی کی کوند اور چمک کی طرح گزر جائے گا۔ کوئی تیز ہوا کی طرح گزر جائے گا۔ اور کوئی تیز تیز قدم۔ حتی کہ ایسا مومن بھی گزرے گا جس کی روشنی بس اس کے قدموں کے انگوٹھوں تک ہوگی۔ (اس کے آگے نہیں ) وہ ہاتھوں کے بل گرتا پڑتا گزرے گا اور کوئی ہاتھوں سے لٹکتا گزرے گا۔ اور کوئی گرے گا تو اس کو پہلوئوں کو جہنم کی آگ پہنچے گی۔‘‘[2] صراط پر چلنے کا ثبوت کتا ب وسنت دونوں سے ملتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : {ثُمَّ نُنَجِّی الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّ نَذَرُ الظّٰلِمِیْنَ فِیْہَا جِثِیًّاo} (مریم:۷۲) ’’پھر ہم ان لوگوں کو بچالیں گے جو ڈر گئے اور ظالموں کو اس میں گھٹنوں کے بل گرے ہوئے چھوڑ دیں گے۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ’’اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے ! جن لوگوں نے (حدیبیہ کے موقع پر کیکر کے ) درخت تلے بیعت کی تھی ان میں سے کوئی جہنم میں داخل نہ ہوگا۔ اس پر ام المومنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا اللہ نے یہ نہیں فرمایا: {اِنْ مِّنْکُمْ اِلَّا وَارِدُہَا} (مریم: ۷۱) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (جواب میں ) ارشاد کیاتو نے نہیں سنا کہ (آگے) اللہ تعالیٰ (یہ ) فرماتے ہیں : {ثُمَّ نُنَجِّی الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّ نَذَرُ الظّٰلِمِیْنَ فِیْہَا جِثِیًّاo} (مریم: ۷۲)
[1] سیرۃ عمرلابن الجوزی،ص:۲۵۷ [2] شرح الطحاویۃ،ص: ۴۷۰