کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 168
حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِہَا وَ کَفٰی بِنَا حٰسِبِیْنَ } (الانبیاء: ۴۷)
’’اور ہم قیامت کے دن ایسے ترازو رکھیں گے جو عین انصاف ہوں گے، پھر کسی شخص پر کچھ ظلم نہ کیا جائے گا اور اگر رائی کے ایک دانہ کے برابر عمل ہوگا تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم حساب لینے والے کافی ہیں ۔‘‘
۴۔ حوض:
حضرت عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے دمشق کے والی کولکھا کہ ’’وہ ابو سلام حبشی سے اس حدیث کے بارے میں دریافت کریں جو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے سنی تھی اگر تو وہ اس حدیث کو ثابت کریں تو انہیں ڈاک کے گھوڑوں پر سوار کر کے بھیج دینا۔‘‘[1]اور ایک روایت میں ہے کہ آپ نے ابو سلام حبشی کو ڈاک کے گھوڑوں پر بلوا بھیجا جب وہ آپ کے پاس آئے تو کہنے لگے۔مجھے یہاں تک آنے میں مشقت ہوئی۔ آپ نے فرمایا ہمارا ارادہ یہ نہ تھا (کہ ) آپ کو کسی تکلیف میں ڈالتے مگر بات یہ ہے کہ مجھے آپ کے واسطے سے حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کی حوض والی حدیث پہنچی ہے۔ میں نے چاہا کہ وہ حدیث آپ سے بالمشافہ سنوں ۔ اس پر ابو سلام حبشی بولے ’’میں نے حضرت ثوبان سے سنا، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا آپ فرماتے ہیں ’’بے شک میرا حوض عدن سے لے کر عمانِ بلقاء تک (کی مسافت جتنا) ہے۔‘‘[2] اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے او اس کے (پا س پینے کو رکھے) پیالوں کی تعداد آسمان کے ستاروں جتنی ہے۔ جس نے (روز محشر) اس کا ایک گھونٹ بھی پی لیا اس کو پھر کبھی پیاس نہ لگے گی۔ اس پر سب پہلے آنے والے لوگ مہاجرین رضی اللہ عنہم کے فقراء ہوں گے۔‘‘[3]
بے شک حوض کو ثر پر ایمان لانا اہلِ سنت والجماعت کا عقیدہ ہے جس کی دلیل نصوصِ صریحہ ہیں جن کی تعداد حدِ تو اتر کو پہنچی ہوئی ہے۔
۵۔ صراط:
سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اپنے بھائی کو لکھا:
’’اے میرے بھائی! تم نے (زندگی کا) زیادہ تر سفر طے کر لیا ہے جو باقی ہے وہ بہت کم ہے۔ اے میرے بھائی! ذرا مصادر وموارد (نکلنے اور آنے کی جگہوں ) کو یاد کر لو (جن سے روزمحشر سابقہ پڑنے والا ہے )۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس بات کی وحی کی گئی ہے کہ آپ اہل ورود (آنے والوں ) میں سے ہیں ناکہ اہل صدور اور خروج میں سے ہیں ۔ خبردار اس بات سے بچنا
[1] البدایۃ والنھایۃ نقلا عن الآثار : ۱/۴۶۲
[2] الآثار الواردۃ:۱/۴۶۳
[3] سیرۃ عمرلابن الجوزی،ص: ۳۷