کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 167
اور فرمایا: ’’میں اس بات سے اللہ کی پناہ میں آتاہوں کہ میں تمہیں اس بات کاحکم دوں جس سے خود باز رہتا ہوں کہ یوں تو میں گھاٹے کا سودا کروں گا اور میری مفلسی اور مسکینی اس دن ظاہر ہو گی جس میں فقر وغنا دونوں ظاہر ہو جائیں گے اور ترازئویں قائم کر دی جائیں گی۔‘‘[1] بجدل شامی اپنے والد سے بیان کرتے ہیں جو سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے دوستوں میں سے تھے۔ وہ کہتے ہیں : ’’میں نے عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو یہ آیت پڑھتے دیکھا: {وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَۃِ } (الانبیاء:۴۷) ’’اور ہم قیامت کے دن انصاف کی ترازو کھڑی کریں گے۔‘‘ آپ نے یہ آیت آخر تک (یعنی ’’وکَفَی بِنَا حٰسبین‘‘ تک) ختم کی۔اور اپنے ایک پہلو کی طرف اس طرح جھک گئے کہ گرنے کو ہوگئے۔‘‘ [2] یہ سب آثار اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ لوگ قبروں سے اٹھا کر میدان محشر میں کھڑے کر دئیے جائیں گے اور رب تعالیٰ فصل قضاء کے لیے اپنے شایان شان نزولِ اِجلال فرمائیں گے تو ترازو قائم کیے جائیں گے۔ بے شک یہ حقیقی ترازو ہوگا جو بندوں کے اعمال کا وزن کرے گا۔ اہل سنت والجماعت کایہی عقیدہ ہے۔[3] علامہ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں : ’’ابواسحاق زجاج کا قول ہے کہ اہل سنت کامیزان پر اور اس بات پر ایمان لانے پر اجماع ہے کہ روز قیامت بندوں کے اعمال میزان سے تو لے جائیں گے۔ اوریہ کہ ترازو کا ایک کانٹا اور دوپلڑے ہوں گے اور یہ کہ ترازو زیادہ وزن والے پلڑے کو جھکائے گا۔ خواہ اس میں نیکیاں ہوں یا برائیاں جبکہ معتزلہ نے میزان کا انکار کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ میزان سے مراد عدل ہے۔ یہ تاویل کر کے انہوں نے کتاب وسنت کی محالفت کی ہے۔ کیونکہ اس بات کی خبر خود اللہ نے دی ہے کہ وہ بندوں کے اعمال کا وزن کرنے کے لیے ترازو قائم کرے گا۔ تاکہ بندوں کو ان کے اعمال مشخص کر کے دکھلائے اور تاکہ وہ خود اپنے اوپر گواہ بنیں ۔‘‘[4] یہ ترازو بے حد باریک ہے جو بندوں کے اعمال کے وزن کو صحیح صحیح تولے گا۔ نہ گھٹائے گا اور نہ بڑھائے گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: {وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَۃِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْئًا وَ اِنْ کَانَ مِثْقَالَ
[1] الحلیۃ: ۵/۲۹۱ [2] سیرۃ عمر لابن الجوزی،ص:۲۴۸ [3] الآثار الواردۃ:۱/۴۵۷ [4] فتح الباری: ۱۳/۵۳۸