کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 166
’’اور کیا انسان نے نہیں دیکھا کہ بے شک ہم نے اسے ایک قطرے سے پیدا کیا تو اچانک وہ کھلا جھگڑنے والا ہے۔اور اس نے ہمارے لیے ایک مثال بیان کی اور اپنی پیدائش کو بھول گیا، اس نے کہا کون ہڈیوں کو زندہ کرے گا، جب کہ وہ بوسیدہ ہوں گی؟ کہہ دے انھیں وہ زندہ کرے گا جس نے انھیں پہلی مرتبہ پیدا کیا اور وہ ہر طرح کا پیدا کرنا خوب جاننے والا ہے۔ ‘‘
اور فرمایا:
{اَیَحْسَبُ الْاِِنسَانُ اَنْ یُّتْرَکَ سُدًی o اَلَمْ یَکُ نُطْفَۃً مِّنْ مَّنِیٍّ یُّمْنٰی o ثُمَّ کَانَ عَلَقَۃً فَخَلَقَ فَسَوّٰیoفَجَعَلَ مِنْہُ الزَّوْجَیْنِ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰی o اَلَیْسَ ذٰلِکَ بِقٰدِرٍ عَلٰی اَنْ یُّحْیِ یَ الْمَوْتٰی } (القیامہ:۳۶۔۴۰)
’’کیا انسان گمان کرتا کہ اسے بغیر پوچھے ہی چھوڑ دیا جائے گا؟کیا وہ منی کا ایک قطرہ نہیں تھا جو گرایا جاتا ہے۔پھر وہ جما ہوا خون بنا، پھر اس نے پیدا کیا، پس درست بنا دیا۔ پھر اس نے اس سے دو قسمیں نر اور مادہ بنائیں ۔کیا وہ اس پر قادر نہیں کہ مردوں کو زندہ کردے؟‘‘
اسی طرح قیامت کے دن زندہ اٹھائے جانے پر احادیث بھی دلالت کرتی ہیں ۔ چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم نے ارشاد فرمایا: ’’رب تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں : ابن آدم نے مجھے جھٹلایا اور یہ بات اسے زیبانہ تھی (کہ مجھے جھٹلاتا) اور ابن آدم نے مجھے گالی دی اور یہ بات اس کے مناسب نہ تھی (کہ وہ مجھے گالی دیتا)۔ رہا اس کا مجھے جھٹلانا تو وہ یوں ہے کہ وہ یہ گمان کرتا ہے کہ میں اسے دوبارہ اسی طرح زندہ کرنے پر جس طرح وہ پہلے تھا، قادر نہیں (حالانکہ میں اس بات پر پوری طرح قادر ہوں ) اور رہا اس کا مجھے گالی دینا تو وہ اس کا یہ کہنا ہے کہ میرے اولاد ہے، حالانکہ میری ذات اس بات سے پاک (ا ور بلند وبرتر ) ہے کہ میں بیوی کروں اور اولاد کروں ۔[1]
بعینہ ان نصوص کے مضامین سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے آ ثار میں بھی مروی ہیں ۔[2]
۳۔ میزان:
سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کاقول ہے :
’’کیا تم مُردے کے حالات میں غور نہیں کرتے اس کا چہرہ مٹ گیا اس کا ذکر بھلا دیا گیا، لوگ اس کے دروازے پر آنا چھوڑ گئے جیسے کوئی اس کا دوست تھا ہی نہیں اور نہ وہ کبھی اس دنیا میں آباد تھا۔ اس دن سے ڈرو جس دن میں ترازؤوں میں ذرہ برابر بھی کوئی چیز مخفی نہ رہے گی۔‘‘[3]
[1] صحیح البخاری، رقم: ۳۰۹۳
[2] الآثار الواردۃ: ۱/۴۵۲
[3] سیرۃ عمرلابن الجوزی،ص: ۲۵۵