کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 164
’’اللہ مومنوں (کے دلوں ) کو (صحیح اور )پکی بات سے دنیا کی زندگی میں بھی مضبوط رکھتا ہے اور آخرت میں بھی (رکھے گا)۔‘‘
صحیح روایات سے ثابت ہے کہ یہ آیت عذاب قبر کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔[1]
اور فرمایا:
{اَلنَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَعَشِیًّا } (غافر: ۴۶)
’’آتشِ (جہنم) کہ وہ صبح وشام اس کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں ۔‘‘
۲۔ آخرت پر اور اس بات پر ایمان کہ رب تعالیٰ فیصلے کے لیے نزول اجلال فرمائیں گے:
سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے خناصرہ میں خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’اے لوگو! تمہیں یوں ہی بیکار نہیں پیدا کیا گیا۔ اور نہ تم لوگوں کو یوں ہی بلاحساب کتاب چھوڑ دیاجائے گا۔ بے شک تمہیں معاد (آخرت)سے واسطہ پڑے گا جس میں تمہارا رب تمہارے درمیان فیصلہ کرنے کے لیے اتر ے گا اور تمہارے درمیان حکم کرے گا۔‘‘[2]
اور اپنے ایک عامل کو یہ خط لکھا: ’’امابعد! گویا کہ بندے اپنے رب کی طرف (چلے جارہے ہیں بلکہ ) پہنچ گئے ہیں اور جو کچھ انہوں نے کیا وہ ان کو جتلائے گا۔ تاکہ برائی کرنے والوں کو ان کے عملوں کا اور نیکی کرنے والوں کو نیکی کا بدلہ دے۔‘‘[3]
جریر بن حازم سے روایت ہے وہ کہتے ہیں : سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے عدی کو جو خط لکھا تھاوہ میں نے پڑھا ہے، اس میں لکھا تھا کہ ’’جان لو! کوئی آدمی لوگوں کے درمیان ان کے سب قضایا کا فیصلہ نہیں کرسکتا یہاں تک کہ کوئی مسئلہ باقی نہ رہے (نہیں بلکہ) کچھ قضایا کا باقی رہنا ضروری ہے جن کے درمیان فیصلہ روز حساب تک موخر رہے گا۔ [4]
آپ نے عدی بن ارطاۃ کو یہ بھی لکھا: ’’امابعد! میں تمہیں وہ رات یاد دلاتا ہوں جو قیامت کو جنم دے گی اور اس کی صبح قیامت قائم ہوگی۔ ہائے وہ رات، اور ہائے وہ دن جو کافروں پر بڑا سخت ہوگا۔‘‘[5]
اور ایک لشکر کو یہ خط لکھا: ’’امابعد! میں تم لوگوں کو اللہ کے تقویٰ کی اور اس کی طاعت کو لازم پکڑنے کی وصیت کرتاہوں ۔ پس جو جنت کی رغبت رکھتا ہو یا وہ دوزخ سے بھاگنا چاہتا ہو تو آج اسے اس کی فرصت ہے اور آج اس کی تو بہ مقبول ہے اور اس کے گناہ معاف ہیں قبل اس کے کہ اس کی موت آجائے اس کی
[1] الروح لابن القیم،ص:۱۴۴
[2] سیرۃ عمرلابن عبدالحکم،ص:۴۲
[3] ذم الدنیا لابن ابی الدنیا،ص: ۸۱
[4] کتاب الزہد: ۱/۲۹۹۔۳۰۰ از ہناد السری
[5] سیرۃ عمرلابن الجوزی،ص: ۱۱۵