کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 163
اورجنت دوزخ کافیصلہ وغیرہ… الخ۔سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے ان امور پر بھی گفتگو کی ہے ذیل میں چند باتوں کو ذکر کیا جاتا ہے۔
۱۔ قبر کا عذاب اور نعمت:
سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے ایک آدمی سے فرمایا: ’’اے فلاں ! رات میں نے سورئہ تکاثر کی تلاوت کی جس میں قبروں کی زیارت کا ذکر ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{اَ لْہٰکُمُ التَّکَاثُرُ o حَتّٰی زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ } (التکاثر:۱۔۲)
’’لوگو! تم کو (مال کی) بہت سی طلب نے غافل کردیا یہاں تک کہ تم نے قبریں جا دیکھیں ۔‘‘
یاد رکھو! آدمی قبر میں جتنا بھی ٹھہرے بالآخر اس میں سے نکلے گا۔ پھر یا تو جنت کی طرف جائے یا پھر دوزخ کی طرف۔‘‘[1]
ایک دفعہ خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’ لوگو! کیا تم نہیں دیکھتے کہ تم لوگ ہلاک ہونے والوں کے لوٹے ہوئے مال و اسباب میں ، مرنے والوں کے گھروں میں اور (دنیا چھوڑ کر) چلے جانے والوں کے مکانات میں رہ رہے ہو۔ کل تک وہ تمہارے پڑوسی تھے اور آج وہ (قبروں کے ) خاموش گھروں میں پڑے ہیں ۔ جن میں سے بعض کی روح کو قیامت تک امن ہوگا اور بعض کی روح کو قیامت تک عذاب ہوگا۔‘‘[2]
ایک دفعہ خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’تم لوگ زندگی کا جو دن بھی بتا رہے ہو (دراصل ) اللہ کی طرف جا رہے ہو۔ وہ دن گزر چکا اور اس کا وقت پورا ہو گیا پھر تم زمین کے ایک شگاف میں (یعنی قبر میں )غائب ہوجائو گے (یعنی تمہیں قبروں میں اتار دیا جائے گا) جس میں ناکوئی تکیہ ہوگا اور نا بستر (اور وہ قبر غیر ہموار اور غیر آرام دہ ہوگی) دوست جدا ہوگئے، وہ اپنا مال اسباب چھوڑ گئے۔اب انہیں (اپنے سب کیے دھرے کے ) حساب کا سامنا ہے اور اب وہ مٹی کے باسی ہوگئے ہیں اور وہ اپنے اعمال کے بدلے گروہیں ۔ جو چھوڑ آئے اس کی انہیں ضرورت نہیں اور جو آگے بھیج چکے اس کے محتاج ہیں ۔‘‘[3]
سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے یہ اقوال وآثار عذابِ قبر اور نعیمِ قبر کے اثبات پر دلالت کرتے ہیں ۔ اوریہی اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے اور اسی پر کتاب وسنت کی نصوص دلالت کرتی ہیں ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ فِی الْاٰخِرَۃِ }
(ابراہیم: ۲۷)
[1] الحلیۃ: ۵/۳۱۷
[2] سیرۃ عمر لابن الجوزی: ۲۵۹۔۲۶۰
[3] سیرۃ عمرلابن الجوزی،ص:۲۵۹۔۲۶۰