کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 162
{وَ مَا کَانَ اللّٰہُ لِیُضِیْعَ اِیْمَانَکُمْ } (البقرہ: ۱۴۳)
’’اور اللہ ایسا نہیں کہ تمہارے ایمان کو یو ں ہی کھو دے۔‘‘
اس آیت کا سببِ نزول یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جب اس بات کا سوال کیاگیا کہ ان لوگوں کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں جن کا اس زمانہ میں انتقال ہوگیا جب نمازیں بیت المقدس کی طرف منہ کر کے ادا کی جاتی تھیں ؟ تو اس پر رب تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ اس آیت میں اس بات پر دلالت ہے کہ رب تعالیٰ نے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے ادا کی جانے والی نمازوں کو ایمان کانام دیاہے۔ جب یہ بات نماز کے بارے میں ثابت ہوگئی تو دوسری طاعات میں بھی ثابت ہوگئی۔[1]
سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اپنے ایک رسالہ میں یہ لکھا: ’’میں رب تعالیٰ سے اس کے فضل اور اس کی رحمت کے طفیل اس بات کا سوال کرتاہوں کہ وہ ہدایت والے کی ہدایت میں اور اضافہ کرے اور ’’مسیٔ توبہ‘‘ کو اپنی عافیت میں لوٹالے۔‘‘ [2]
اور آپ کا ایمان پورا کرنے کے موضوع پر یہ قول ہے : ’’پس جس نے ان باتوں کو پورا کر لیا اس نے ایمان کو پورا کرلیا اور جس نے ان باتوں کو پورا نہیں کیااس نے اپنا ایمان پورا نہیں کیا۔‘‘[3] یہ آثار بتلاتے ہیں کہ ایمان بڑھتا گھٹتا ہے اس بات پر کتاب وسنت اور سلف صالحین کے اقوال وآثار دلالت کرتے ہیں ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیْہِمْ اٰیٰتُہٗ زَادَتْہُمْ اِیْمَانًا } (الانفال:۲)
’’اور جب انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو ان کا ایمان اور بڑھ جائے گا۔‘‘
اور ائمہ اسلاف میں سے امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ قول ہے کہ ’’میں بلاد وامصار کے ایک ہزار سے زیادہ علماء سے ملا اور میں نے کسی کو بھی اس بات میں اختلاف کرتے نہیں دیکھا کہ ایمان قول اور عمل کا نام ہے اور یہ کہ ایمان بڑھتا گھٹتا ہے۔‘‘[4]
۶…روز آخرت پر ایمان
آخرت کے دن پر ایمان پرگفتگو اور بھی متعدد امور کو متضمن ہے۔ جن میں سے ہر ایک امر کی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ جیسے وہ امور جو موت کے بعد واقع ہوں گے۔ جیسے قبر کا عذاب، قبر کی نعمتیں ، اور وہ امور جو قبر کی زندگی ختم ہونے اور قیامت برپا ہونے کے بعد واقع ہوں گے، جیسے قبروں سے زندہ ہو کر نکلنا، اور میدان محشر میں جمع ہو نا، پھر وہ امور جو روز قیامت واقع ہوں گے جیسے ثواب وعقاب کاملنا
[1] الاعتقاد للبیھقی،ص: ۹۵،۹۶
[2] الطبقات: ۶/۳۱۳
[3] فتح الباری:۱/۴۵
[4] البخاری مع الفتح: ۱/۴۷