کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 161
’’امابعد! بے شک اللہ پر ایمان لانا، نمازقائم کرنا، اور زکوٰۃ ادا کرنا یہ دین کے (مضبوط) کڑوں اور اسلام کے (بنیادی) ستونوں میں سے ہے۔ اس لیے تم نماز کو اپنے وقت پر ادا کرو۔‘‘[1]
سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے بیان کیا کہ ’’ایمان چند فرائض کا نام ہے : یعنی اعمال مفروضہ ایمان کا حصہ اور اس کا ستون ہیں جیسے نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ وغیرہ۔
اورایمان یہ شرائع ہے: یعنی عقائد دینیہ یہ ایمان میں سے ہیں جیسے اللہ اور اس کے فرشتوں پر ایمان لانا وغیرہ۔ ایمان کی حدود کا مطلب ہے ممنوعات شرعیہ جیسے شراب نوشی اور زنا۔
سنن سے مراد مند وبات ہیں جیسے رستہ سے تکلیف دہ چیز وغیرہ کا اٹھادینا کہ یہ سب امور ایمان میں سے ہیں ۔‘‘[2]
سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ سے ماثور یہ قول حق ہے جس پر کتاب وسنت اور سلف صالحین کے اقوال دلالت کرتے ہیں اہل حق کے نزدیک ایمان قول باللسان، تصدیق بالجنان اور عمل بالارکان کا نام ہے۔[3]ایمان کے قول باللسان ہونے کی دلیل یہ ارشاد تعالیٰ ہے:
{قُوْلُوْٓا اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْنَا وَ مَآ اُنْزِلَ اِلٰٓی اِبْرٰہٖمَ } (البقرۃ: ۱۳۶)
(اے مسلمانو!) کہو کہ ہم اللہ پر ایمان لائے اور جو (کتاب) ہم پر اتری اس پر اور جو (صحیفے ) ابراہیم پر اترے اس پر (ایمان لے آئے)‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’مجھے اس بات کاحکم دیاگیا ہے کہ میں لوگوں کے ساتھ قتال کرتا رہوں یہاں تک کہ وہ لاالہ الا اللہ کہہ دیں پس جس نے لاالہ الا اللہ کہہ دیا اس نے اپنی جان اور مال کو مجھ سے محفوظ کر لیا مگر حق شریعت کے ساتھ (اگر اس کی جان یا مال لینا پڑے تو وہ اور بات ہے) اور اس (کے باطن) کا حساب اللہ کے ذمے ہے۔ [4]
رہی بات دل کے اعمال کے ایمان میں سے ہونے کی تو اس کی دلیل یہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُہُمْ } (الانفال:۲)
’’مومن تو وہ ہیں کہ جب اللہ کاذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں ۔‘‘
الوجل (ڈرنا): یہ دل کافعل ہے جس کو اس آیت میں ایمان کانام دیاگیا ہے۔ رہی اس بات کی دلیل کہ جوا رح کے اعمال بھی ایمان میں سے ہیں ، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
[1] سیرۃ عمرلابن عبدالحکم،ص: ۷۲
[2] الآثار الواردۃ عن عمر فی العقیدۃ: ۱/۵۴۵
[3] الآثار الواردۃ عن عمر فی العقیدۃ: ۱/ ۵۴۴
[4] صحیح مسلم، رقم: ۳۲