کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 160
کے نماز ادا نہ کی جائے اور ایسا اس وقت کیا گیا جب حجرہ مبارکہ کی دیوار گرگئی۔ چنانچہ آپ نے حجرہ مبارکہ کواس طرز پر پانچ ستونوں کے ساتھ تعمیر کیا۔[1] بہرحال مقصد یہ بتلانا ہے کہ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اپنے علم وحکمت سے شرک کے سب رخنے بند کر دیئے۔ ولایت مدینہ کے دور میں مسجد نبوی کی تعمیر کی بابت آپ کا یہ طرز اس بات کا بین ثبوت ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنی قبر مبارک کو اور دوسروں کی قبروں کو بھی مسجد بنانے سے منع فرمایا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ممانعت اس ڈرسے تھی کہ کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم میں مبالغہ نہ کیا جانے لگے اور لوگ اس سے فتنے میں نہ پڑجائیں ۔ بلکہ بسا اوقات یہ حد سے بڑھی ہوئی تعظیم کفر تک لے جاتی ہے جیساکہ بعض گزشتہ قوموں نے اس بابت کفر کا ارتکاب کر کے دکھایا۔[2] اسی لیے آپ نے خود اپنی قبر کو بھی پختہ نہ بنانے کی وصیت کی اور اس بات سے شدت کے ساتھ منع فرمایا حالانکہ آپ اس دور میں رہتے تھے جس میں ابھی تک عقائد بالکل واضح، صاف، صحیح، پختہ اور ہر قسم کے شکوک وشبہات سے پاک اور شفاف تھے اور ابھی تک اس دور کی وہ حالت نہ ہوئی تھی جو مابعد کے ادوار کی ہوگئی تھی۔ لیکن بلاشبہ یہ آپ کے مقاصدِ سنت کے فہم صحیح، نبوی منہج اور نہج صحابہ کی سچی پیروی اورتوفیق یزدانی کی بدولت دین کی حقیقی سوجھ بوجھ کافیضان تھا کہ آپ نے محض اس ڈر سے اپنی قبر کو پختہ نہ بنانے وصیت کی کہ کہیں اس کو مسجد نہ بنالیا جائے۔ چنانچہ اس سے قبل کہ یہ مسئلہ سنگینی اختیار کر جاتا آپ نے ابتداء ہی سے اس کا سدباب کردیا۔ بے شک آپ کا یہ موفق سیّدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کی اس حدیث سے ثابت ہے جس کو امام مسلم نے روایت کیاہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا کہ ’’قبروں کو پختہ بنایا جائے، اوریہ کہ ان پر بیٹھا جائے یا ان پر کوئی عمارت تعمیر کی جائے۔‘‘[3] ۵…سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے نزدیک ایمان کا مفہوم عدی بن عدی کہتے ہیں : سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے مجھے یہ خط لکھا: امابعد! بے شک ایمان کے کچھ فرائض و شرائع اور سنن وحدود ہیں ۔ پس جس نے ان سب کو پورا کر لیا اس نے ایمان کو پورا کر لیا اور جن نے ان کو پورا نہیں کیا اس نے ایمان کو پورا نہیں کیا۔ اگر میں زندہ رہا تو میں تم لوگوں کو یہ سب بیان کروں گا تاکہ تم ان پر عمل کر سکو اور اگر میں مرگیا تو مجھے بھی تم لوگوں کے ساتھ رہنے کا زیادہ شوق نہیں ۔‘‘ [4] جعفر بن برقان سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں : حضرت عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے ہمیں یہ خط لکھا:
[1] الآثار الواردۃ عن عمرفی العقیدۃ: ۱/۲۶۵ [2] صحیح مسلم بشرح النووی: ۲/۱۸۵ [3] صحیح مسلم،رقم: ۹۷۰ [4] فتح الباری: ۱/۴۵