کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 158
رب تعالیٰ کا نفس یہ رب تعالیٰ کی ذات ہے جو اس کی صفات سے متصف ہے اور اس سے وہ ذات مراد نہیں جو صفات سے جدا ہو اور نہ اس سے ذات کی صفت مراد ہے۔ (بلکہ ذات مراد ہے جو صفات سے متصف ہے)۔ [1]
۲۔ صفتِ ’’وَجْہٌ‘‘:
سیّدنا عمر رحمہ اللہ نے خوارج کو جو رسالہ لکھا تھا اس میں یہ مضمون تھا۔ ’’میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں ، اگر تم میری پہلو نٹھی اولاد بھی ہوتے تو میں تم لوگوں کا خون بہا دیتا اور (التمس بذلک وجہ اللّٰہ والدار الآخرۃ) اس سے اللہ کی (وجہ یعنی اس کی) رضا اور آخرت کا طلبگار ہوتا۔‘‘[2]
رب تعالیٰ کی صفتِ (وجہ) رب تعالیٰ کی ان صفات ذاتیہ خبر یہ میں سے ہے جس پر کتاب وسنت کی دلالت موجود ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{وَ الَّذِیْنَ صَبَرُوا ابْتِغَآئَ وَجْہِ رَبِّہِمْ }
’’اور جو اپنے پروردگار کی (وجہ یعنی) خوشنودی حاصل کر نے کے لیے (مصائب پر ) صبر کرتے ہیں ۔‘‘
یاد رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رب تعالیٰ سے ایسی دعا کبھی مانگ نہیں سکتے جو ناجائز ہو۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رب تعالیٰ سے یہ دعا مانگتے ہیں کہ ’’اے مرے رب! مجھے اپنے چہرے پر نظر ڈالنے کی لذت نصیب فرما۔‘‘ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ’’اور میں تجھ سے تیرے چہرے پر نظر ڈالنے کی لذت کا سوال کرتا ہوں ۔‘‘[3]
۳۔ صفت ’’القُدْرَۃُ‘‘:
آپ نے اپنے ایک عامل کو یہ خط لکھا: اما بعد! جب لوگوں پر تیری قدرت و طاقت تمہیں ان پر ظلم کرنے پر آمادہ کرے تو رب تعالیٰ کی اس قدرت کو یاد کرلینا جو ان پر ہونے والے ظلم کو تو ختم کر دے گی البتہ تجھ پر آنے والے عذاب کوباقی رکھے گی۔[4]
قدریہ پر رد کرتے ہوئے آپ اپنے رسالہ میں لکھتے ہیں : بے شک اللہ اپنی قدرت میں سب سے بر تر ہے اور اس بات سے زیادہ طاقتور ہے کہ کوئی اس کے علم کو باطل کرسکے۔[5]
یہ دونوں آثار بتلاتے ہیں کہ سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ رب تعالیٰ کے لیے صفت قدرت کو ثابت کرتے ہیں اور یہ رب تعالیٰ کی وہ صفت ہے جو عقل ونقل دونوں سے ثابت ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
[1] الفتاوی نقلاً عن الآثار الواردۃ: ۱/۳۱۴
[2] سیرۃ عمر لابن عبدالحکم،ص:۷۵
[3] صحیح سنن النسائی للالبانی وصححہ: ۱/۲۸۰۔۲۸۱
[4] سیرۃ عمرلابن الجوزی،ص: ۱۲۵
[5] الحلیۃ: ۵/۳۴۷