کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 157
کیا وہ شخص جو آگ میں پھینکاجائے بہتر ہے، یا جو امن کی حالت میں قیامت کے دن آئے؟ تم کرو جو چاہو۔‘‘ علماء اسلام کا طریقہ یہ تھا کہ وہ رب تعالیٰ کے اسماء و صفات کو مخلوقات کے ساتھ مماثلت کی نفی کے ساتھ ثابت کرتے تھے۔ اور یہ ثابت کرنا بلاتشبیہ کے تھا اور وہ رب تعالیٰ کی ذات کو بلاتعطیل منزہ قرار دیتے تھے۔ جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: {لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ } (الشوریٰ: ۱۱) ’’اس جیسی کوئی چیز نہیں ۔‘‘ اس آیت میں رب تعالیٰ نے تشبیہ اور تمثیل کارد کیا ہے۔ اور ارشاد باری تعالیٰ ہے: {وَہُوَ السَّمِیْعُ البَصِیْرُ} (الشوری: ۱۱) ’’اور وہ دیکھتا اور سنتا ہے۔‘‘ کہ اس آیت میں رب تعالیٰ نے الحاداور تعطیل کا رد کیا ہے۔[1] صفات کے باب میں سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ سے متعدد آثار مروی ہیں ۔ چنانچہ آپ رب تعالیٰ کے لیے ان صفات کو ثابت کرتے تھے جن کو رب تعالیٰ نے خود اپنے لیے ثابت کیا ہے۔ آپ نے رب تعالیٰ کے لیے صفت نفس، وجہ، علم، کبریاء، قدرت، علو، معیت، قرب، مشیت، ارادہ، غضب، رضا، اور رحمت[2]وغیرہ کو ثابت کیا۔ ذیل میں اس بابت چند آثار کو ذکر کیا جاتا ہے: ۱۔صفت نفس کا اثبات: سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے ضحاک بن عبدالرحمن کو خط میں یہ لکھا: ’’اما بعد! ’’بے شک رب تعالیٰ نے اسلام اپنے نفس کی رضا کاسبب ٹھہرایا ہے اور یہ بات مخلوق پر اس کے کرم میں سے ہے کہ وہ اسلام کے سوا کسی دوسرے دین کو قبول نہ کرے گا۔‘‘[3] اس اثر میں صفت نفس کا اثبات ہے جس پر کتاب وسنت دلالت کرتے ہیں ۔ ارشاد تعالیٰ ہے: {وَیُحَذِّرُکُمُ اللّٰہُ نَفْسَہٗ وَاِلَی اللّٰہِ الْمَصِیْرُ} (آل عمران: ۲۸) ’’اور اللہ تمھیں اپنے آپ سے ڈراتا ہے اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جاناہے۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رب تعالی کی ثنا بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں … (اے اللہ!) میں تیری ثنا بیان کرنے کو شمار نہیں کر سکتا، (بے شک) تو ویسا ہی ہے جیسے تو نے خود اپنے نفس کی تعریف بیان کی ہے۔‘‘[4] رب تعالیٰ کا نفس یہ رب تعالیٰ کی ذات مقدسہ ہے۔ جیساکہ کتاب وسنت سے ثابت ہے۔[5] لہٰذا
[1] مجموع الفتاوی: ۳/۸ [2] الآثار الواردۃ عن عمر:۱/۳۱۳۔ ۳۵۹ [3] سیرۃ عمرلابن عبدالحکم،ص:۸۶ [4] صحیح مسلم،رقم: ۴۸۶ [5] الآثار الواردۃ عن عمرفی العقیدہ: ۱/۳۱۴