کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 154
ارشاد باری تعالیٰ ہے: {بَلْدَۃٌ طَیِّبَۃٌ وَّ رَبٌّ غَفُوْرٌ} ’’(یہاں تمہارے رہنے کو یہ ) پاکیزہ شہر ہے اور (وہاں بخشنے کو ) رب غفار‘‘ رب کا معنٰی ہے کسی چیز کی اصلاح وتربیت کرنے والا۔ رب الشی کا معنی ہے اس شے کا مالک، پس اللہ عزوجل بندوں کامالک، ان کا اور ان امور واحوال کامصلح و مربی ہے۔[1] لفظ رب’’(جو صیغۂ صفت ہے اس) کا مصدر ’’ربوبیت ‘‘ ہے۔ اور ہر آدمی جو کسی شے کا مالک ہو وہ اس کا رب کہلاتا ہے کہتے ہیں ’’ہذا رب الدار‘‘ (یہ گھر کامالک ہے) اور ’’ہذا رب الصنیعۃ‘‘ یہ اس کام اور کاری گری کا مالک ہے۔ البتہ ’’الرب‘‘ الف لام کے ساتھ صرف اور صرف اللہ عزوجل کے لیے بولا جاتا ہے جو ہر شے کا مالک ہے۔[2] ۲۔ اَلْحَيُّ سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا ایک دوست تھا۔ آپ کو اس کے وفات پاجانے کی اطلاع دی گئی تو آپ اس کے اہل خانہ کے پاس تعزیت کے لیے تشریف لے گئے۔ آپ کو دیکھ کر وہ لوگ فرط غم سے چلانے لگے۔ یہ دیکھ کر آپ نے انہیں ارشاد فرمایا ’’تمہارے یہ صاحب تمہارے روزی رساں نہ تھے تم لوگوں کو روزی دینے والا وہ اللہ ہے جو حیی (زندہ) ہے اور جس کو کبھی موت نہ آئے گی۔‘‘[3] ’’الحی‘‘ یہ رب تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے ہیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: {اَللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ} (البقرہ: ۲۵۵) ’’اللہ(وہ معبود برحق ہے کہ ) اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں (وہ ) زندہ ہمیشہ رہنے والا (ہے)۔‘‘ رب تعالیٰ کی حیات سے پہلے عدم نہیں اور نہ اسے ز وال لا حق ہوگا۔ اور رب تعالیٰ کی حیات علم، قدرت سمع اور بصروغیرہ کی تمام صفات کمالیہ کو مستلزم ہے۔[4] ۳۔ اَلْوَاحِدُ الْقَہَّارُ : سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اپنے خادم خاص مزاحم سے ارشاد فرمایا: ’’اے مزاحم ! ہم سور ج یا چاند میں سے کسی کی وجہ سے مدینہ سے نہیں نکالے گئے بلکہ ہم اللہ واحد قہار کی وجہ سے نکالے گئے ہیں ۔‘‘[5]
[1] الآثار الواردۃ: ۱/۲۸۱۔ [2] اشتقاق اسماء اللّٰه الحسنی للزجاجی،ص: ۳۲۔۳۳ [3] الحلیۃ: ۵/۳۳۰ [4] اشتقاق اسماء اللّٰه الحسنی،ص: ۱۰۲ للزجاجی [5] سیرۃ عمرلابن عبدالحکم،ص: ۳۲