کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 153
ہیں لہٰذا اس اعتبار ے یہ مترادف ہیں کہ ان سب اسماء کا مسمٰی ایک ذات ہے لیکن جو معنی حیی کا ہے وہ رحمن کا نہیں اس اعتبار سے یہ ایک دوسرے کے متباین ہیں ۔[1] بعض نا م نہاد اسلامی فرقوں نے اسمائے حسنیٰ کی توحید کی بابت اسلاف کے عقائد کی مخالفت کی ہے۔ چنانچہ جہمیہ(ان کا ذکر آگے تفصیلاً آرہا ہے) نے اسمائے حسنیٰ کا انکار کیا۔ کیونکہ ان کاگمان تھا کہ توحید رب تعالیٰ نرا پاک قرار دینا ہے اور یہ کہ اسماء حسنیٰ کا اثبات یہ اعراض حادثہ کا اِثبات ہے اس لیے ان کے نزدیک رب تعالیٰ کے دوہی نام ثابت ہیں ایک قادر اور دوسرا خالق۔ کیونکہ جہم کایہ عقیدہ تھا کہ مخلوق میں سے کسی کو قادر نہیں کہہ سکتے کیونکہ بندوں میں استطاعت نہیں ہوتی اور نہ کسی مخلوق کو خالق کے نام سے پکار سکتے ہیں ۔ کیونکہ جہم کے نزدیک ہر وہ نام یاصفت جس کا اطلاق غیر اللہ پر بھی ہوسکتا ہے اس کا اطلاق اللہ پر جائز نہیں ۔[2] اس بنا پر ایک مسلمان کے ذمے یہ بات واجب ہے کہ جب رب تعالیٰ کا کوئی اسم کتاب وسنت سے ثابت ہوجائے تو وہیں ٹھہرجائے اور اس پر ایمان لے آئے، ایسی کسی بدعت، تحریف یا تاویل کو ترک کر دے جو کتاب وسنت میں الحاد کے دروازے پر لاکھڑا کر ے۔[3] ارشاد باری تعالیٰ ہے: {وَ لِلّٰہِ الْاَسْمَآئُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہُ بِہَا وَ ذَرُوا الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْٓ اَسْمَآئِہٖ سَیُجْزَوْنَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْن} (الاعراف:۱۸۰) ’’اور سب سے اچھے نام اللہ ہی کے ہیں ، سو اسے ان کے ساتھ پکارو اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے ناموں کے بارے میں سیدھے راستے سے ہٹتے ہیں ، انھیں جلد ہی اس کا بدلہ دیا جائے گا جو وہ کیا کرتے تھے۔‘‘ سیّدنا عمر رحمہ اللہ کے رسائل میں رب تعالیٰ کے متعدد ناموں کا ذکر ملتا ہے جیسے اللہ، رب، رحمن، رحیم، ملیک، مقتدر، خبیر، کریم، حیی، رقیب، شہید، واحد، قہار، علی العظیم، عفوالغفور، عزیز الحکیم، وارث، خالق اور علیم وغیرہ۔[4] ہم ان میں سے بعض ناموں کو ذکر کرتے ہیں : ۱۔ نام ’’رب‘‘: سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کہتے ہیں : ’’اے میرے رب! مجھے میری عقل سے مستفید کر ‘‘[5] بے شک ’’رب‘‘ رب تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے ہے۔
[1] القوائد المثلی، ص: ۸ [2] منہاج السنۃ : ۲/۵۲۶ [3] الآثار الواردۃ : ۱/۳۰۶ [4] الآثار الواردۃ:۱/۲۷۹۔۳۰۹ [5] سیرۃ عمرلابن عبدالحکم،ص: ۶۸