کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 151
اور اس کا خوف بھی کھاتے تھے۔[1] وہ رب تعالیٰ کے اس ارشاد پر عمل پیرا رہتے تھے:
{اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ یَبْتَغُوْنَ اِلٰی رَبِّہِمُ الْوَسِیْلَۃَ اَیُّہُمْ اَقْرَبُ وَ یَرْجُوْنَ رَحْمَتَہٗ وَ یَخَافُوْنَ عَذَابَہٗ} (الاسراء: ۵۷)
’’وہ لوگ جنھیں یہ پکارتے ہیں ، وہ (خود) اپنے رب کی طرف وسیلہ ڈھونڈتے ہیں ، جوان میں سے زیادہ قریب ہیں اور اس کی رحمت کی امید رکھتے ہیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں ۔ بے شک تیرے رب کا عذاب وہ ہے جس سے ہمیشہ ڈرا جاتا ہے۔‘‘
رب تعالیٰ نے اہل خوف ورجاء کی ان الفاظ کے ساتھ تعریف فرمائی ہے:
{اَمَّنْ ہُوَ قَانِتٌ آنَائَ الَّیْلِ سَاجِدًا وَّقَائِمًا یَحْذَرُ الْآخِرَۃَ وَیَرْجُو رَحْمَۃَ رَبِّہِ}
(الزمر:۹)
’’(کیا یہ بہترہے) یا وہ شخص جو رات کی گھڑیوں میں سجدہ کرتے ہوئے اور قیا م کر تے ہوئے عبادت کرنے والا ہے، آخرت سے ڈرتا ہے اور اپنے رب کی رحمت کی امید رکھتا ہے؟ ‘‘
۲…سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا
رب تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ کے بارے میں عقیدہ
اسمائے حسنیٰ یہ وہ کلمات ہیں جو رب تعالیٰ کی ذات پر دلالت کرتے ہیں ۔ اور یہ اس بات کو بھی متضمن ہیں کہ تمام صفات کمالیہ کسی مماثلت کے بغیر رب تعالیٰ کے لیے ثابت ہیں اور رب تعالیٰ کی ذات ہر قسم کے نقص و عیب سے پاک ہے۔[2]
اسمائے حسنیٰ وہ معروف کلمات ہیں جن کے ذریعے رب تعالیٰ کو پکارا جاتا ہے۔ ان کا ذکر کتاب وسنت میں آتا ہے۔ یہ کلمات فی نفسہٖ رب تعالیٰ کی مدح وثناء کو مقتضی ہیں ۔ [3] قرآن کریم کا ہر قاری اور احادیث نبویہ کا مطالعہ کرنے والا جانتا ہے کہ رب تعالیٰ نے اپنے چند نام خود ذکر کیے ہیں جبکہ رب تعالیٰ کے کچھ نام جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی لیے ہیں ۔ یہ بات معلوم ہے کہ اسلافِ امت رب تعالیٰ کے لیے ان ناموں کو ثابت کرتے ہیں جو خود رب تعالیٰ نے اپنے لیے رکھے ہیں اور جن سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو پکارا ہے۔ کیونکہ رب سے زیادہ اور رب کے بعد جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کسی کا علم
[1] الآثار الواردۃ عن عمرفی العقیدۃ: ۱/ ۲۹۵۔
[2] منہج اہل السنۃ و منہج الاشاعرۃ فی التوحید اللہ: ۲/۳۹۱۔ از خالد عبدالطیف۔
[3] الآثار الواردۃ عن عمر فی العقیدۃ : ۱/۲۷۶