کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 150
بے شک میرا حال بے حد برا ہے میں بڑے خطرے میں گھر اہوں ۔ میرے لیے رب سے دعا کرنا کہ اس نے مجھے جس آزمائش میں ڈالا ہے اس میں مجھ پر رحم کر ے اور مجھے معاف کرے۔[1]
جب چند ہی دنوں میں آپ کا بیٹا، بھائی اور خادم مزاحم تینوں کا انتقال ہوگیا تو ربیع بن سبرہ نے آپ سے کہا: ’’اے امیر المومنین! میں نے نہیں دیکھا کہ کوئی آدمی چند مسلسل دنوں میں آپ سے زیادہ کسی بڑی مصیبت میں گرفتار ہوا ہو، میں نے آپ کے بیٹے جیسا بیٹا، بھائی جیسا بھائی اور خادم جیسا خادم نہیں دیکھا۔‘‘ ربیع کہتے ہیں میری یہ بات سن کر آپ نے کچھ دیر تک کے لیے سر جھکا لیا اور پھر کہا، ’’اے ربیع! تم نے کیا کہا؟ میں نے اپنی بات دوبارہ دہرا دی۔ اس پرآپ نے فرمایا: ’’نہیں اس اللہ کی قسم! جس نے انہیں موت دی ہے ! مجھے یہ پسند نہیں کہ جس مغفرت وثواب کی میں ان کے بارے میں اللہ سے امید رکھتا ہوں اس کے بدلے میں ان میں سے کوئی میرے پاس ہو۔‘‘[2] قتادہ سے روایت ہے کہ سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اپنے بعد والے ولی عہد کے لیے یہ وصیت لکھوائی کہ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم! اللہ کے بندے عمر امیر المومنین کی طرف سے یزید بن عبدالملک کو ! السلام علیک، میں تیرے سامنے اس اللہ کی حمد بیان کرتاہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں ، امابعد! میں یہ پروانہ تمہیں اس وقت لکھ رہا ہوں جب میں مرض الوفات میں مبتلا ہو چکا ہوں ۔جانتا ہوں کہ جس کو میں والی بنا جائوں گا اس کی بابت میرا محاسبہ وہ کرے گا جو دنیا اور آخرت کا بادشاہ ہے۔ میں اپنی کوئی بات اس سے چھپا نہیں سکتا۔ اسی بادشادہ دو جہان کا یہ ارشاد ہے:
{فَلَنَقُصَّنَّ عَلَیْہِمْ بِعِلْمٍ وَّ مَا کُنَّا غَآئِبِیْنَ} (الاعراف: ۷)
’’پھر یقینا ہم ان کے سامنے ضرور پورے علم کے ساتھ بیان کریں گے اور ہم کہیں غائب نہ تھے۔‘‘
پس اگر تو رب تعالیٰ کی رحیم و کریم ذات مجھ سے راضی ہوگئی تو میں کامیاب ہو جائوں گا اور طویل ہول سے نجات پا جائوں گا۔ اور اگر وہ مجھ سے ناراض ہو گیاتو جو میرا انجام ہوگا، اس پر افسوس ! میں اس اللہ سے جس کے سوا کوئی معبود نہیں اس بات کا سوال کرتاہوں کہ وہ مجھے دوزخ کی آگ سے نجات دے اور مجھے اپنی رضا کے طفیل جنت بخش دے۔ [3]
سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا یہ عمل بتلاتا ہے کہ آپ نے اپنے دل میں خوف ورجاء دونوں کو جمع کر رکھا تھا اور خوف و رجاء کا دل میں جمع کرنا اسلاف صالحین کا عقیدہ ہے۔ اس عقیدہ کی بدولت مومن ایک تو رب کی گرفت سے محفوظ رہتا ہے جبکہ رب سے مایوسی بھی اس کے پاس پھٹکنے نہیں پاتی۔ چنانچہ اسلاف رب کی رحمت کی امید بھی رکھتے تھے۔
[1] الطبقات : ۵/۳۹۴۔۳۹۵
[2] المعرفۃ والتاریخ للفسوی: ۱/۶۱۰
[3] سیرۃ عمر، لا بن الجوزی: ۱/۲۴۵