کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 149
محافظ ہو اس لیے تم میں سے جو بھی گھر لوٹنا چاہے اسے دس دینار ملیں گے۔[1]
ولایت مدینہ سے معزولی کے بعد آپ کے اپنے خادم مزاحم کے ساتھ مدینہ سے نکلنے کے واقعہ کو گزشتہ صفحات میں تفصیل کے ساتھ ذکر کیا جاچکا ہے کہ آپ نے اپنے خادم کو جواب میں یہ کہا: ’’ہم دبران ستارے کی وجہ سے نہیں بلکہ رب واحد قہار کی وجہ سے مدینہ سے نکلے ہیں ۔‘‘[2]
سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ اسباب مشروعہ کو اختیار کر کے توکل کیا کرتے تھے اور یہی توکل ہے کہ اسباب تو اختیار کیے جائیں پر اعتماد رب تعالیٰ پر ہو، بے شک یہ بات اصول توحید میں سے ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{فَاعْبُدْہُ وَ تَوَکَّلْ عَلَیْہِ} (ہُود: ۱۲۳)
’’تو اسی کی عبادت کرو اور اسی پر بھروسہ رکھو۔‘‘
اورفرمایا:
{وَتَوَکَّلْ عَلَی الْحَیِّ الَّذِیْ لَا یَمُوتُ} (الفرقان: ۵۸)
’’اور اس زندہ پر بھروسا کر جو نہیں مرے گا۔‘‘
توکل ان عظیم اور بڑے اسباب میں سے ہے جن کی بدولت مطلوب تک رسائی حاصل ہوتی ہے اور ناگواریوں کو دفع کیا جاتا ہے۔ اسباب کا منکر توکل میں مستقیم نہیں ہوسکتا۔ البتہ کامل توکل یہ ہے کہ اسباب کی طرف میلان نہ کیا جائے گو اختیار کیا جائے۔ یعنی دل ان میں اٹکانہ ہو بلکہ دل رب کے ساتھ اٹکا ہو چاہے بدن نے اسباب اختیار کر رکھے ہوں ۔[3]
۴۔خوف ورجاء:
یزید بن عیاض بن جعدبہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں : سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے سلیمان بن ابی کریمہ کو خط لکھا کہ بے شک رب تعالیٰ کی سب سے زیادہ تعظیم کرنے والا اور اس سے ڈرنے کے لائق وہ بندہ ہے جو اس آزمائش میں مبتلا کیا گیا ہو جس میں میں مبتلا کیا گیا ہوں ۔ اور مجھ سے زیادہ سخت حساب والا کوئی نہیں اور اگر اس کی نافرمانی کی جائے تو اس کی نزدیک مجھ سے زیادہ بے قیمت کوئی نہیں ۔ میں بار خلافت سے تنگدل اور آزردہ ہوں ا ور مجھے ڈرہے کہ اس ذمہ داری کا حق ادا نہ کر پانے کی بنا پر ہلاک نہ ہو جائوں ۔ الا یہ کہ اللہ ہی اپنی رحمت سے میری کوتاہی کا تدارک کردے۔ مجھے خبر پہنچی ہے کہ تم خروج فی سبیل اللہ کاارادہ رکھتے ہو۔ اے بھائی ! میں چاہتا ہوں کہ اللہ کے رستے میں نکل کر تم میرے لیے شہادت کی موت کی دعا کرو،
[1] سیرا علام النبلاء: ۵/۱۳۶
[2] سیرۃ عمر لابن عبدالحکم،ص: ۳۲
[3] مدارج السالکین:۲/۱۲۵