کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 147
پر رحم نہ کیا تو یقینا ہم ضرور خسارہ پانے والوں سے ہو جائیں گے۔‘‘
اور وہ دعا مانگو جو نوح علیہ السلام نے مانگی تھی :
{وَ اِلَّا تَغْفِرْلِیْ وَ تَرْحَمْنِیْٓ اَکُنْ مِّنَ الْخٰسِرِیْنَo} (ھُود: ۴۷)
’’اور اگر تو نے مجھے نہ بخشا اور مجھ پر رحم نہ کیا تو میں خسارہ پانے والوں سے ہو جائوں گا۔‘‘
اور وہ دعا مانگو جویونس علیہ السلام نے مانگی تھی:
{لَّآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَo} (الانبیاء: ۸۷)
’’تیرے سوا کوئی معبود نہیں ، تو پاک ہے، یقینا میں ظلم کرنے والوں سے ہو گیا ہوں ۔‘‘
جب شام میں زلزلہ آیا تو آپ نے اپنی رعایا کو اس بات کا حکم دیا کہ وہ رب کی طرف متوجہ ہوں ، صدقہ کریں ، استغفار کریں اور عیدگاہ کی طرف نکلیں ۔[1]
د: میمون بن مہران کا بیان ہے کہ میں عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے پاس بیٹھا تھا۔ اتنے میں آپ بے حد رونے لگے اور بار بارموت کی دعا مانگنے لگے۔ میں نے پوچھا ’’آپ موت کی دعا کیوں مانگتے ہیں حالانکہ خدا نے آپ سے یہ یہ خیر کے کام لیے ہیں ۔ آپ کے ذریعے اللہ نے سنتوں کو زندہ کیا اور بدعتوں کو ختم کیا؟ اس پر آپ نے فرمایا: ’’کیا میں اس نیک بندے کی طرح نہ بنوں کہ جب اللہ اس کی آنکھیں ٹھنڈی کر دیں اور اس کا امر سیدھا کردیا تو اس نے یہ دعا مانگی:
{رَبِّ قَدْ اٰتَیْتَنِیْ مِنَ الْمُلْکِ وَ عَلَّمْتَنِیْ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَنْتَ وَلِیّٖ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ تَوَفَّنِیْ مُسْلِمًا وَّ اَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَo}
(یوسف: ۱۰۱)
’’اے میرے رب! بے شک تو نے مجھے حکومت سے حصہ دیا اور باتوں کی اصل حقیقت میں سے کچھ سکھایا، آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والے! دنیا اور آخرت میں تو ہی میرا یار ومددگار ہے، مجھے مسلم ہونے کی حالت میں فوت کر اور مجھے نیک لوگوں کے ساتھ ملادے۔ ‘‘
آپ نے اپنے سے پہلے صالحین کی اقتداء میں ایمان پر موت کی دعا مانگی۔ بے شک یہ دعا پیغمبروں کی سنت اور صالحین کا شعار ہے۔ اور بسا اوقات آپ نے دین میں فتنوں کے ڈرسے بھی موت کی دعا مانگی، بالخصوص جب آپ کے اعوان وانصار بیٹا عبدالملک، بھائی سہل اور خادم خاص مزاحم کا انتقال ہوگیا۔ جیساکہ بعض روایات میں آتا ہے۔[2]
[1] الآثار الواردۃ عن عمرفی العقیدۃ: ۱/۲۲۰
[2] العقد الفرید : ۴/۳۹۶