کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 146
ذرا دیکھئے کہ سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کس طرح توحید اور طاعت کو وسیلہ بناتے ہیں اور ب تعالیٰ سے مغفرت کے طالب ہوتے ہیں ۔ بے شک اعمال صالحہ کے ساتھ توسل اختیار کرنا مشروع ہے جیساکہ حدیثِ غار میں تین افراد کا قصہ آتا ہے جن میں سے ہر ایک نے اپنی اپنی نیکی یاد کر کے اس کے وسیلے سے نجات وخلاصی کی دعا مانگی تھی۔ [1]بے شک مومن اپنے نیک اعمال کو وسیلہ بناتے ہیں اور دعا مانگنے سے قبل ان کو ذکر کرتے ہیں ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{رَبَّنَآ اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیْ لِلْاِیْمَانِ اَنْ اٰمِنُوْا بِرَبِّکُمْ فَاٰمَنَّا رَبَّنَا فَاغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَ کَفِّرْعَنَّا سَیِّاٰتِنَا وَ تَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَار} (آلِ عمران: ۱۹۳)
’’اے ہمارے رب! بے شک ہم نے ایک آواز دینے والے کو سنا، جو ایمان کے لیے آواز دے رہا تھا کہ اپنے رب پر ایمان لے آئو تو ہم ایمان لے آئے، اے ہمارے رب! پس ہمیں ہمارے گناہ بخش دے اور ہم سے ہماری برائیاں دور کر دے اور ہمیں نیکوں کے ساتھ فوت کر۔‘‘
یہاں ایمان والوں نے دعا سے قبل ایمان لانے کے نیک عمل کو پیش کیاہے۔ قرآن کریم میں ایسی مثالیں بے شمار ہیں ۔[2]
ج: ایک دفعہ شام میں زلزلہ آیا تو آپ نے اہل شام کو یہ خط لکھا بھیجا : ’’اما بعد! بے شک اس زلزلہ کے ذریعے اللہ اپنے بندوں پر عتاب فرماتے ہیں اور اہل امصار کو یہ لکھا کہ ’’وہ فلاں ماہ کے فلاں دن کو نکلیں اور جس کے پاس جو کچھ ہو وہ اسے صدقہ کرے۔‘‘[3]
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی o وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰیo} (الاعلی: ۱۴۔۱۵)
’’بے شک وہ کامیاب ہوگیا جو پاک ہوگیا ۔اور اس نے اپنے رب کا نام یاد کیا، پس نماز پڑھی ۔‘‘
اور وہ دعا مانگو جو آدم علیہ السلام نے مانگی تھی:
{رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا سکتہ وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنo}
(الاعراف: ۲۳)
’’دونوں نے کہا اے ہمارے رب ! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں نہ بخشا اور ہم
[1] صحیح مسلم رقم: ۲۷۴۳
[2] الآثار الواردۃ عن عمرفی العقیدۃ: ۱/۲۱۹
[3] سیرۃ عمر بن عبدالحکم،ص: ۶۴