کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 145
پر بھی روشنی ڈالی جائے کہ توحید سے مراد ہے کیا اور جب توحید کا کلمہ مطلق بولاجاتا ہے تو اس کا مفہوم کیا ہوتا ہے۔ چنانچہ بعض نے توحید کا مفہوم یہ بیان کیا کہ رب تعالیٰ کی ذات اس بات کی مستحق ہے کہ اسی اکیلے کی بلاشرکت غیرے عبادت کی جائے۔[1]جبکہ بعض محققین نے توحید کا مفہوم یہ بیان ہے کہ یہ بندے کا اپنے افعال کے ذریعے رب کی توحید کو بیان کرنا ہے۔ اور اس سے مراد یہ ہے کہ طلب و قصد میں توحید ہو، یعنی وہ عبادت کرے تو ایک اکیلے اللہ کی بلاشرکت غیرے عبادت کرے، اسی طرح خوف ورجاء محبت و توکل، رہبت ورغبت بھی اسی اکیلے اللہ سے بلاشرکت غیرے کی جائے۔ اور بدنی، مالی ہر قسم کی عبادت کے ذریعے اس کا تقرب حاصل کیا جائے۔ جس میں مخلوق میں سے کوئی شریک نہ ہو۔[2] سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ سے ایسے متعدد آ ثار منقول ہیں جو دعا تبرک، خوف ورجاء اور شکر وتوکل کے بارے میں ہیں ذیل میں ہم دعا کی بابت آپ سے مروی آثار کو بیان کرتے ہیں ۔ ۱۔دعا: الف: ایک دفعہ آپ ایک آد می کے پاس سے گزرے جس کے ہاتھ میں چند کنکریاں تھیں جن سے وہ کھیل رہاتھا اور ساتھ ہی یہ بھی کہتا جارہا تھا، اے اللہ ! میری حورعین سے شادی کر دے۔ یہ سن کر آپ اس کی طرف بڑھے اور فرمایا تم کتنے برے دعا مانگنے والے ہو، یہ کنکریاں ہاتھ سے کیوں نہیں پھینکتے، ان کو پھینک کر پھر اللہ کی طرف پوری طرح متوجہ ہو اور اخلاص کے ساتھ دعا مانگو۔[3] یہ اثر بتلاتا ہے کہ آپ کے نزدیک اخلاص اور حضور قلب دعا کی شرائط میں سے ہے۔ اور اس پرقرآن و سنت دونوں دلالت کرتے ہیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: {فَادْعُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہٗ الدِّیْنَ} (الغافر:۱۴) ’’تو اللہ کی عبادت کو خالص کر کے اس کو پکارا کرو۔‘‘ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : اللہ کو اس حال میں پکارو کہ تمہیں دعا کے قبول ہونے کا یقین ہو جان لوکہ اللہ غافل اور بے پرواہ دل کی دعا قبول نہیں کرتے۔[4] ب: آپ اکثر یہ دعا مانگا کرتے تھے: ’’اے اللہ! میں نے تیری اس بات میں اطاعت کی جو تجھے سب سے زیادہ محبوب ہے اور وہ تیری توحید ہے اور اس بات میں تیری نافرمانی نہیں کی جو تجھے سب سے زیادہ مبغوض ہے اور وہ تیرا کفر ہے پس تو ان دونوں کے درمیان کی میری لغزشوں کو معاف فرما۔‘‘ [5]
[1] شرح العقیدۃ الطحاویۃ : ۱/۲۹ [2] رسالۃ توحید الالوہیۃ اساس الاسلام،ص: ۷ از عبد القادر احمدی [3] الحلیۃ: ۵/۲۸۷ [4] جامع الترمذی: ۵/۴۸۳ [5] سیرۃ عمر: لابن القیم الجوزیۃ،ص: ۲۴۲