کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 142
رب تعالیٰ اس امت کے دین کی تجدید کرے گا۔ یا اس لفظ کا مفہوم اس سے بھی زیادہ وسیع ہے جس میں افراد و جماعات بھی داخل ہیں ۔ اکثر علماء اس طرف گئے ہیں کہ اس سے مراد فرد واحد ہے اور علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے اس رائے کو جمہور کی طرف منسوب کیا ہے۔ چنانچہ وہ مجددین کے بارے میں یہ شعر کہتے ہیں : ’’مجدد فرد واحد ہوتا ہے۔ یہی مشہور قول ہے اوریہی حدیث میں آتا ہے اور اس کو جمہور نے اختیار کیا ہے۔‘‘[1] جبکہ دوسرا فریق اس طرف گیا ہے کہ حدیث میں مذکورہ لفظ مَنْ عموم کے لیے ہے جو اس لفظ کا اصلی اور وضعی معنیٰ ہے۔[2] لہٰذا اس سے جماعت بھی مراد لی جاسکتی ہے اور فرد واحد بھی، ان دونوں مفاہیم پر اس لفظ کا اطلاق یکساں ہوتا ہے۔ [3] یہ مفہوم ابن حجر، ابن اثیر، ابن کثیر، ذہبی، مناوی اور عظیم آبادی [4] نے لیا ہے۔ بحث وتحقیق اور تلاش وجستجو سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حدیث میں وارد لفظ (مَنْ) کا عمومی معنی مراد لینا اولیٰ ہے۔ کیونکہ تاریخ اور واقعات اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ گزشتہ صدیوں میں ان کے اختتام پر متعدد مجددین موجود تھے۔ دوسرے تجدید کی ذمہ داری بے حد بھاری ہے جس دائرئہ بے حد پھیلا ہوا ہوتا ہے کیونکہ تجدید دین کے کسی ایک پہلو سے متعلق نہیں ہوتی۔ پھر خود امت اسلامیہ روئے زمین پر چاروں طرف پھیلی ہے، اس لیے بھی کسی ایک مجدد پر حصر واقتصار کرنا بے حد دشوار اور قریب ناممکن ہے۔ بلکہ تجدید کا وسیع و عریض عمل افراد کی جماعت سے ہی سرانجام دیا سکتا ہے۔[5] ھ: کیا نیا دین امت کا دین ہوگاناکہ نفس دین ؟ یہاں پر ایک سوال اور بھی پیداہوتاہے وہ یہ کہ حدیث شریف میں ’’من یجد د لھا دینھا‘‘ کے الفاظ آتے ہیں (یعنی وہ مجدد امت کے لیے ان کے دین کی تجدید کرے گا) یہاں لفظ ‘‘’’دین کی امت کی طرف اضافت ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا ’’من یجدد لھا الدین‘‘ (کہ وہ مجدد امت کے لیے دین کی تجدید کرے گا) اور اس ارشاد کی وجہ یہ ہے کہ دین اس معنی کے اعتبار سے کہ وہ منہج الٰہی ہے جس کو رب تعالیٰ نے حضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے اس امت تک پہنچایا ہے اور یہ ان عقائد وعبادات، اور اخلاق وشرائع پر مشتمل ہے جو بندے کو اپنے رب کے ساتھ اور اپنے جیسے دوسرے انسانوں کے ساتھ جوڑتے ہیں ۔ یہ دین آج تک اسی طرح ثابت ہے جس طرح رب تعالیٰ نے اسے نازل فرمایا تھا اور اس میں ادنیٰ سی بھی تغیر و تبدیلی کی ہر گز گنجائش نہیں ۔ اور نہ اس دین میں تجدید کا تصور ممکن ہے کیونکہ اس کو خود اس کا نازل
[1] عون المعبود: ۱۱/۳۹۴ [2] التجدید فی الفکر الاسلامی، ص: ۶۱ [3] ایضًا [4] التجدید فی الفکر الاسلامی، ص: ۶۲۔۶۳ [5] التجدید فی الفکر الاسلامی، ص: ۶۵