کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 141
مراد ہے یا خاتمہ علماء کا اس کی تعین میں اختلاف ہے۔۔ چنانچہ بعض نے آغاز اور بعض نے اختتام مراد لیا ہے۔ [1] جن میں ابن حجر،[2] طیبی[3] اور عظیم آبادی[4] کا نام آتا ہے۔ علامہ عظیم آبادی رحمہ اللہ نے اس قول کو اختیار کر نے کی دلیل یہ پیش کی ہے کہ امام زہری اور امام احمد ائمہ متقدمین و متاخرین سب کا اس بات پر اجماع ہے کہ پہلی صدی ہجری کے خاتمہ پر جو شخص مجدد ہوگزرا ہے وہ عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ ہیں جبکہ دوسری صدی کے خاتمہ پر جو مجدد گزرے ہیں وہ امام شافعی ہیں ۔ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے چالیس سال کی عمر میں ۱۰۱ھ میں وفات پائی۔ آپ کی مدتِ خلافت محض اڑھائی سال ہے۔ جبکہ امام شافعی رحمہ اللہ نے ۲۰۴ھ میں وفات پائی۔[5] اب اگر رأس سے مراد کسی چیز کا آغاز لیا جائے تو نہ امام شافعی رحمہ اللہ مجدد بنتے ہیں اور نہ سیّدنا عمربن عبدالعزیز ہی کیونکہ سیّدنا عمربن عبدالعزیز پہلی صدی کے آغاز میں پیدا نہیں ہوئے اور نہ امام شافعی دوسری صدی ہجری کے آغاز میں پیدا ہوئے ہیں اس لحاظ سے یہ دونوں حضرات ان صدیوں کے مجدد کیونکر ہوسکتے ہیں ۔[6] حالانکہ ان دونوں کے مجدد ہونے پر اتفاق ہے۔ ج: کیا کسی کو کو مجدد تسلیم کرنے کے لیے یہ شرط ہے کہ وہ اس صدی کے اختتام پر ہی وفات پائے؟ بعض علماء نے استحقاق مجددیت کے لیے اس بات کو شرط ٹھہر ایا ہے کہ وہ شخص صدی کے آخر میں وفات پائے البتہ یہ رائے مرجوح ہے کیونکہ حدیث میں لفظ ’’بعث‘‘ آیا ہے جو ارسال، اظہار، موت، قبض اور زوال وغیرہ کے معانی پر دلالت کرتا ہے، اس لحاظ سے اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ مجدد وہ ہوگا جس پر صدی کا خاتمہ ہوگا اور اس میں اس کے تجدیدی اعمال کا ظہور ہوگا۔ وہ صلاح اور تعمیمِ نفع کے وصف کے ساتھ شہرت پائے گا۔ اور یہ شرط نہیں کہ وہ صدی کے اختتام پر وفات بھی ضرور پائے۔ یایہ کہ دوسری صدی کے شروع ہونے تک زندہ رہے۔[7] د: کیاکسی صدی کا مجدد ایک ہوگا یا متعدد؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد ’’جو اس امت کے دین کی تجدید کرے گا‘‘ نے ماضی اور حاضر میں یہ سوال اٹھایا ہے کہ حدیث میں وارد لفظ ’’مَنْ‘‘ سے مراد فردِ واحد ہے یا متعدد افراد ہیں جن کے ذریعے
[1] عون المعبود: ۱۱/۳۸۶ [2] فتح الباری:۱۳/۲۹۵ [3] عون المعبود: ۱۱/۳۸۹ [4] عون المعبود: ۱۱/۳۸۷ [5] عون المعبود: ۱۱/۳۸۷ [6] التجدید فی الفکر الاسلامی،ص: ۵۸ [7] التجدید فی الفکر الاسلامی ،ص: ۶۱