کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 140
کی وضاحت کی ہے۔[1]چنانچہ اسلام کی تاریخ ظہور اور نور سے بھری پڑی ہے۔ جیسے سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا دور[2] نور الدین زنگی، صلاح الدین ایوبی، یوسف بن تاشفین اور محمد فاتح جیسے جہابذہ اور عبقری صلاحیتوں کے مالک امراء و مجاہدین کے ادوار۔ اس مقام پر اس بات کی طرف اشارہ کر دینا بھی ضروری ہے کہ ’’حدیثِ تجدید‘‘ جس کی شرح وتفسیر ہم بیان کر رہے ہیں اور اس طرح وہ دوسری احادیث جو بشارت اور امید کے مضامین پر مشتمل ہیں کہ اسلام اپنی پہلی صورت پر ضرور لوٹے گا۔ بے شک یہ سب احادیث پیغمبرِ معصوم صادق و امین حضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زبان سے صادر ہوئی ہیں اور یہ اسی طرح واقع ہو کررہیں گی جیساکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبردی ہے۔ مگر اتنی بات ضرور ہے کہ خود ان احادیث کے مضمون میں امت مسلمہ کو اس بات کا مکلف بنایا گیا ہے اور ان کے جذبات کو انگیخت کیا گیا ہے کہ وہ اس دین کے لیے اللہ کی نصرت اور اس دین والوں کے لیے اعزاز وسربلندی کو ثابت اور محقق کرنے کے لیے پیہم اور ولولہ انگیز محنتیں کریں ۔ جیساکہ اسباب ومسببات کی ترتیب میں رب تعالیٰ کی کونی و تشریعی سنت ہے۔[3] اب ہم ذیل میں مذ کورہ بالاحدیث کے ہر ہر جز کی قدرے تفصیل بیان کرتے ہیں : الف: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ’’بے شک رب تعالیٰ اس امت کے لیے بھیجیں گے۔‘‘ مذکورہ بالا حدیث کا یہ پہلا ٹکڑا ہے جو یہ بتلایا ہے کہ وہ مجدد فقط اپنے لیے نہ جئے گا بلکہ وہ پوری امت کے لیے جئے گا۔ان سب کا غم کھائے گا۔ وہ صاحب عزیمت ہوگا جو امت کے غم کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالے گا اور دن رات لگا تار اپنی ساری توانائیاں امت مسلمہ کی اصلاح وتجدید میں خرچ کر دے گا۔ تاکہ اس امت کو اس کی مشکلات سے نکالے اور اس کے اندر اپنے دین پر پختہ اعتماد ویقین دوبارہ پیدا کرے اور اسے اپنے صحیح منہج پر لوٹائے۔ اور وہ اس رستے کی تکالیف مصائب،دشواریوں ا، اذیتوں اور تکلیفوں کو خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کرے گا۔ اور اس راستے کے ہر چیلنج کا مردانہ وار سامنا کرے گا تاکہ اس امت کی عظمت رفتہ کو بحال کرے اور اسے دوبارہ عزت وشرافت کی چوٹی تک جا پہنچائے۔[4] ب: آگے ارشاد ہے ’’ہر سوسال کے سرے (یعنی خاتمہ) پر‘‘ مذکورہ حدیث میں لفظ رأس آیا ہے۔ لغت کے اعتبار سے اس سے کسی چیز کا آغاز بھی مراد لیا جاسکتا ہے اور اس کاخاتمہ بھی۔ 5 [5] ہرحال یہاں آغاز
[1] مدارج السالکین ۳/۱۹۶ [2] التجدید فی الفکر الاسلامی، ص: ۵۶ [3] الاجتھاد للتجدید،ص: ۷ از عمر عبید حسنہ۔ [4] التجدید فی الاسلام نقلا عن التجدید فی الفکر الاسلامی، ص: ۵۷ [5] عون المعبود: ۱۱/۳۸۶