کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 139
پھیلانے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے تاکہ ہم مایوسیوں اور ناامیدیوں کی ان سرکش موجوں کاپوری پامردی اور ہمت واستقلال کے ساتھ مقابلہ کر سکیں ۔ جو امت اسلامی پر چڑھی چلی آر ہی ہیں اور انہیں دل شکستہ، پژمردہ، بے حوصلہ اور بزدل بنارہی ہیں اور امتِ مسلمہ گویا طاغوتی یلغاروں کے آگے پسپا، سپر انداز اور گھٹنے ٹیک رہی ہے اور اس نے بجائے ان کا مقابلہ کرنے کے یوں لگتا ہے جیسے ان آگے ہتھیار ڈال دیئے ہوں ۔ ا س پر مستزادیہ کہ امت مسلمہ اپنی پسپائی اور پست ہمتی کی دلیل یہ پیش کرنے لگی ہے کہ اب آخری زمانہ ہے، کسی اصلاحی محنت کو شش کا کوئی فائدہ نہیں ۔ یہ بیکار کی محنت ہے، کیونکہ اسلام دن بدن پستی میں گرتا جارہا ہے اور کفر کا اقبال بلند ہوتا جار ہا ہے۔ ادھر قیامت کی علاماتِ صغری کا ظہورروز افزوں ہے۔ اب تو بس علامات کبری کے ظہور کا انتظار ہے اور قصہ تمام، پھر قیامت۔ کہاں کی دنیا او رکہاں کی اصلاح وتجدید۔ اس انتہائی بزدلانہ او رشکست خوردہ خیال کے مالک لوگ بعض احادیث کو صحیح طور پر نہ سمجھ پانے کی بنا پر ان سے اپنے شرمناک افکار کا استدلال کرتے ہیں ۔[1] انہی چند احادیث میں سے ایک بخاری کی یہ حدیث ہے جس کی صحیح مراد تک یہ کوتاہ فہم پہنچنے سے عاجزرہ گئے۔، جو حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، ’’تم پر جو زمانہ بھی آئے گا مگر یہ کہ اس سے اگلا زمانہ اس سے بھی برا (اور بدتر) ہوگا۔ یہاں تک کہ تم اپنے رب سے ملو گے‘‘۔ [2] اور فرمایا: ’’دین اسلام جب شروع ہوا تو وہ غریب (یعنی لوگوں کے لیے اجنبی اور کسمپرسی کی حالت میں ) تھا اور عنقریب یہ دوبارہ غریب (یعنی لوگوں کے لیے اجنبی اور نامانوس) ہو جائے گا۔ پس شادمانی ہو غرباء کے لیے (اور ترمذی کی روایت میں آگے یہ الفاظ ہیں کہ : اور غرباء وہ لوگ ہیں جو اُس بگاڑ کے اصلاح کی کوشش کریں گے جو میرے بعد لوگ میری سنت میں پیدا کریں گے۔)[3] لیکن یہ لوگ ایسی احادیث کا من چاہا مفہوم اخذ کر تے وقت یہ بات بھول جاتے ہیں کہ ایسی احایث کو ان احادیث سے جدا کرکے سمجھنا جائز نہیں جو امت مسلمہ کو بشارت دلاتی اور امید دلاتی ہیں ۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’میری امت کی مثال بارش کی سی ہے نہیں معلوم کہ اس کے پہلے قطرے بہتر ہیں یا آخری۔‘‘[4] یعنی کون سی سی قوم اور کون سا زمانہ افضل ہے یہ اللہ ہی جانتے ہیں ۔ جیساکہ امام ابن قیم رحمہ اللہ نے اس
[1] التجدید فی الفکر الاسلامی، ص: ۵۵ [2] صحیح البخاری، کتاب الفتن، رقم ۶۵۴۱ [3] صحیح مسلم، کتاب الایمان رقم: ۲۰۸۔ ہم نے اس حدیث کا ترجمہ معمولی تصرف کے ساتھ معارف الحدیث ج ہشتم ص ۶۹ سے نقل کیا ہے۔ (مترجم) [4] جامع الترمذی، رقم: ۲۷۹۵ حدیث صحیح