کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 138
د: مجدد کے علم وعمل کا نفع اس کے زمانہ کے سب لوگ اٹھاتے ہیں :
کیونکہ ایک مجدد ایک ایسے زمانی مرحلے کا فرد ہوتا ہے جو ایک صدی سے دوسری صدی تک پھیلا ہوتا ہے۔ لہٰذا مجدد کا ایک ایسا انسان ہونا ضروری ہے جو نور کا منارہ ہو جس سے لوگ روشنی حاصل کرتے ہوں اور انہیں نشان منزل اور منزل کا پتا ملتا ہو اور اس مجدد کی ذات سے اس علمی استفادہ کا سلسلہ کم از کم دوسرے مجدد کے آنے تک کے زمانہ تک جاری رہنا چاہیے۔ اور یہ بات اس امر کو متقضی ہے کہ مجدد کا علم اور اس کا نفع اپنے عصر کے لوگوں کے لیے عام ہو۔ اور یہ کہ اس کی اصلاحی کوششیں لوگوں کے افکار وسلوک پر ایک واضح اثر مرتب کرتی ہوں اور مجدد کی یہ منفعت زیادہ تر اس صورت میں سامنے آتی ہے کہ وہ اپنے تربیت یافتہ تلامذہ اور مخلص رفقا کی ایک معتدبہ تعداد تیار کر کے اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے جو اس کے اصلاحی کاموں کے سلسلہ کو جاری رکھتے ہیں ‘ اس کی تالیفات کی نشرواشاعت اور افکار ونظریات کی ترویج میں ہمہ تن کمر بستہ رہتے ہیں اور وہ ان فکری مکاتب کی بنیادیں رکھتے ہیں جو اصلاح وتجدید میں ان مجددین کے نقش قدم پر ہوتی ہیں ۔[1]
(۳)…حدیث: ’’بے شک رب تعالیٰ ہر سو سال کے خاتمہ پر اس امت کے لیے ایک
ایسے شخص کو کھڑا کریں گے جو اس امت کے دین کی تجدید کرے گا‘‘ [2]سے حاصل ہونے والے فوائد اور دروس وعبر
علمائے کرام نے اس حدیث کو رب تعالیٰ کی طرف سے ایک بشارت گردانا ہے کہ اپنے دین کی حفاظت اللہ خود کرے گا۔ چاہے زمانہ کتناہی لمباکیوں نہ ہوجائے۔ اور خود رب تعالیٰ کا اس دین کی کفالت کرنا اس امت کے ایک لیے اعزاز ہے، جس کی صورت یہ ہے کہ رب تعالیٰ ان ربانی مجددین کو بھیجتارہے گا جو اس دین کو مردہ ہوجانے کے بعد زندہ کر تے رہیں گے۔ اور اس دین کو نیند سے بیدار کرتے رہیں گے۔ کیونکہ وہ ہدایت اور نور کے حامل ہوں گے۔ یہ حدیث ایک مسلمان میں غیر متزلزل یقین کو بیدار کرتی ہے۔ اس میں پکی امید کی طاقت پیدا کرتی ہے۔ اس کے دل میں امیدو ں کے چراغ جلا کر مایوسیوں کے اندھیروں کو کافور کرتی ہے۔ اور اس بات کا پختہ یقین دلاتی ہے کہ آنے والا زمانہ اسلام کا ہی ہے، چاہے اہل باطل کی سرکشی آسمان کو کیوں نہ جا چھوئے، اور ان کی مادی طاقتوں کا دائرہ اعداد وشمار سے باہر ہی کیوں نہ نکل جائے۔ اوریہ کہ اسلام کانور پھیل کر رہے گا چاہے کفر وطغیان، طاغوت وبطلان اور تمردو عصیان کی رات کتنی ہی تیرہ وتاریک اور سیاہ کیوں نہ ہوجائے۔
بے شک آج ہمیں اس پختہ یقین کو اپنے جیوں میں پیدا کرنے کی، اور اس یقین کو امت مسلمہ میں
[1] التجدید فی الفکر الاسلامی، ص: ۴۸
[2] سلسلہ الاحادیث الصحیحۃ: ۲/۱۵۱