کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 137
ذہن، مستقیم فکر جس میں کسی قسم کی کجی نہ ہو، بے پناہ اور مضبوط صبر، افراط وتفریط کے درمیان معتدل رستے کی وضاحت کرنے کی اور دونوں کے درمیان اعتدال کی رعایت کرنے کی قوت نادرہ، صدیوں سے پڑی تعصبات کی دبیز تہوں اور موجودہ حالات کی تاثیرات سے خالی قوتِ فکر، اور زمانے کی استقامت واعتدال سے منحرف روش کے خلاف مزاحمت کرنے کی بے مثال جرأت وشجاعت ‘‘[1] (کہ ایک مجدد میں ان صفات کا ہونا لازمی ہے۔) ایک مجدد کے کرنے کے کام کتنے ہیں ان پر گفتگو کرتے ہوئے سیدمودودی کہتے ہیں : ’’دین میں اجتہاد کرنا۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ایک مجدد کو کلیات دین کا فہم حاصل ہو، اس کے سامنے مدنی احوال اور اپنے دور کی عمرانی ترقی کی صورتیں واضح ہوں ، اس میں قدیم متوارث تمدن کی صورت پر تعبیر و تعدیل کو داخل کرنے کے ایسے طریقے پر مہارت حاصل ہو جو روح شریعت کی سلامتی اور اس کے مقاصد کی تحقیق کا ضامن ہو۔اور وہ مدینہ کی صحیح ترقی میں اسلام کو عالمی امامت پر متمکن بنائے۔‘‘ ج: ایک مجدد کے تجدید ی اعمال کا دائرہ: معاشرے کے فکر وسلوک کے دونوں میدان ہوں ۔ کیونکہ ایک مجدد کا سب سے اہم کام یہ ہوتاہے کہ وہ معاشرے کے انحرافات اور منحرفانہ رویوں کی اصلاح اور تصحیح کرے۔ اوریہ بات سب جانتے ہیں کہ جس طرح فکر ونظر انحراف کی زد میں آجاتے ہیں اس طرح انحراف کی یورش ویلغار سے معاشرے کا رویہ اور سلوک اور چال چلن بھی محفوظ نہیں رہتا۔ بلکہ زیادہ تر انحرافات سلوکیہ کامنشا فکری انحرافات وخرافات ہی ہوتے ہیں ۔ اس لیے ایک مجدد افہام وافکار کا قبلہ درست کرنے اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ اور وہ امت کے افکار ونظریات کو داخلی شکوک وشبہات سے نجات دلاتا ہے اور اسلام کے لیے علم نافع اور فہم صحیح کو زندہ کرتا ہے اور اس کو لوگوں میں تالیف کتب، درس وتدریس اور دوسرے میسر وسائل کے ذریعے پھیلاتا ہے۔ اس کے بعد وہ لوگوں کے رویوں کی اصلاح، اخلاق کی درستی، نفوس کے تزکیہ، مخالف شریعت رسوم کے ابطال، منکرات وخرافات کے خلاف اعلان جنگ کرنے، اور لوگوں کی زندگیوں میں پھیلے منکرات کے خاتمہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے، اس کے ساتھ ہی وہ معاشرے میں پھیلے بگاڑ کی مختلف صورتوں کا بھی بھر پور مقابلہ کرتا ہے بالخصوص اس بگاڑ کا جو حکومت اور امارت کی جڑوں میں بیٹھ چکا ہو۔ یوں ایک مجدد قول وفعل اور علم وعمل دونوں کو جمع کرتا ہے۔ علماء اسلام کے اقوال میں مجدد کی اس صفت اور شرط کے لیے جامع الفاظ یہ منقول ہیں کہ ’’ایک مجدد سنت کامدد گار اور بدعت کے برسر پیکار ہوتا ہے۔‘‘[2]
[1] موجز تاریخ تجدید الدین للمودودی، ص: ۵۲ [2] عون المعبود: ۱۱/۳۹۱