کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 136
کی سیرت اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے منہج پر چلنے والا ہو اور وہ اس طائفہ منصورہ و ناجیہ میں سے ہو جس کے بارے میں احادیث میں یہ آتا ہے کہ تہترفرقوں میں سے وہ ایک فرقہ ہوگا جو اس عقیدہ، منہج اور تصورات کا التزام کرے گا جس پر حضرت خاتمی مرتبت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہوں گے۔[1]بلاشبہ سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ میں یہ شرط بدرجہ اتم پائی جاتی تھی جس کی وضاحت ہم آگے چل کر آپ کے آثارِ عقدیہ میں کریں گے۔ ان شاء اللہ
ب: وہ عالم مجتہد ہو:
مشیتِ الہٰی سے سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ میں یہ شرط بھی کما حقہ پائی جاتی تھی۔ آپ کو اپنے عہد کے متعدد نئے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ اور آپ نے ان کے مسائل کے شرعی حل تلاش کرنے میں مجتہدانہ کاوشیں کیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ مرتبہ اجتہاد اس قدر دشوار بھی نہیں جس کا تصور ہمیں اصول فقہ کی بعض کتب میں ملتا ہے جس کی بنا پر بعض لوگوں نے مجتہد کے لیے ایسی شرائط مقرر کر دیں ہیں جن کا حصول تقریبا ناممکن نظر آتا ہے۔ جیسے ایک مجتہد کو جملہ علوم آلیہ مثلا صرف نحو، لغت اور بلاغت وغیرہ پر اور جملہ علوم عالیہ یعنی علوم شرعیہ جیسے تفسیر، حدیث، اصولِ فقہ، علم القرآن، مصطلحات الحدیث اور سیرت وغیرہ پر اور علم منطق وکلام وغیرہ پر کامل دستگاہ کا ہونا ضروری ہے حالانکہ ان سب علوم پر مہارت ہونا اور ان سب کااحاطہ بے حد دشوار ہوتا ہے۔[2] جبکہ درست بات یہ ہے کہ اجتہاد ہر اس آدمی کے لیے آسان اور میسر ہے جس میں غور وفکر کی لیاقت واستعداد اور اہلیت موجود ہو۔
بہرحال اہم ترین بات یہ جاننا ہے کہ مجدد میں اس شرط کا پایا جانا ضروری ہے کہ اسے مدارک شرع کا احاطہ ہو، وہ فہم واستنباط پر قادر ہو، اپنے زمانہ کے احوال سے واقف ہو اور حقیقت میں فقیہ بھی ہو۔[3] علامہ مناوی لکھتے ہیں : ’’مجدد کے لیے لازم ہے کہ وہ حجت قائم کرنے والا، اور سنت کا ناصر ہو۔ اس میں مشتبہات کو محکمات کی طرف موڑنے کا ملکہ ہو اور اس میں قرآنی نصوص، ارشادات، دلالات اور اقتضاء ات سے حضور قلب اور بیداریٔ عقل کے ساتھ حقائق و نظریات کے استنباط کی قوت ہو۔[4] علامہ ابوطیب شمس الحق عظیم آبادی لکھتے ہیں : مجدد دِین کے لیے ضروری ہے کہ وہ دین کے علوم ظاہر یہ و باطنیہ کا عالم ہو اور وہ ناصر سنت اور قامع بدعت ہو۔[5]
موصوف سیدمودودی رقم طرازہیں کہ : ایک مجدد میں جن صفات کا ہونا ناگزیر ہے، وہ یہ ہیں : صاف
[1] التجدید فی الفکر الاسلامی،ص: ۴۶
[2] عون المعبود:۱۱/۳۹۲
[3] التجدید فی الفکر الاسلامی، ص: ۴۶
[4] فیض القدیر للمناوی: ۱/۱۴
[5] عون المعبود: ۱۱/۳۱۹