کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 135
کااندازہ تاریخ طبری کے مطالعہ سے بخوبی ہوسکتا ہے جس میں طبری نے سیّدنا عمر رحمہ اللہ اور گزشتہ خلفاء کے ادوار کا ایک جامع اور قرار واقعی مواز نہ پیش کیا ہے۔چنانچہ ولید جائیدادوں اور تعمیروں کا رسیا تھا۔ اس لیے اس نے شاندار قلعے اور عمارتیں تعمیر کیں اور خوب جاگیر یں اکٹھی کیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ولید کے دور میں جب لوگ آپس میں ملتے تھے تو ان کی گفتگو کا موضوع ہی تعمیریں اورعمارتیں ہی ہوتاتھا۔ سلیمان خلیفہ بنا تو وہ نکاحوں اور کھانوں کا خوگر تھا، اس لیے اس کے دور میں باندیوں ، کنیزوں ، ان کے ساتھ نکاحوں ، ولیموں ، اور طعام و شراب کی تقریبات کی بابت گفتگوئیں رہتی تھیں ۔
جب کہ سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے دور میں گفتگوئوں کا محور یہ ہوتا تھا کہ رات کتنی تہجد پڑھی؟ قرآن کتنا یا دکیا ہے؟ کب دور ختم ہوا؟ اور اس ماہ میں جناب نے کتنے روزے رکھے ہیں ؟ [1] وغیرہ وغیرہ۔
آپ نے اپنی قلمرو میں ہی دین کو قائم نہ کیا بلکہ غیر مسلموں کی طرف بھی بھر پور توجہ دی۔ اور انہیں اسلام لے آ نے کی دعوت دی۔ چنانچہ آپ نے ہند اور ماوراء النہر کے بادشاہوں کو دعوتی خطوط روانہ کیے، اورا ن سے اس بات کا وعدہ کیا کہ انہیں بھی مسلمانوں والے حقوق ملیں گے اور ان کے ذمے بھی وہی کچھ ہوگا جو مسلمانوں کے ذمہ ہوگا، چنانچہ بے شمار لوگ اسلام لے آئے اور انہوں نے اپنے عربی نام رکھ لیے۔[2]دمت دین کے باب میں آپ کا سب سے بڑا کارنا مہ علوم دینیہ اور بالخصوص علمِ حدیث کی تدوین کا اہتمام تھا۔ جس کی پوری تفصیل آگے آجائے گی۔ ان شاء اللہ۔
مقام حیرت ہے کہ یہ سب عظیم اعمال اور اصلاحاتِ جلیلہ آپ نے نہایت مختصر دورِ خلافت میں سرانجام دیں حتی کہ آپ امتِ مسلمہ کا زیور اور ہدایت کا منارۂ نور بن گئے جس کی روشنی میں آنے والی نسلوں نے تجدید واصلاح کے رستوں کو پایا۔[3]
(۲)… مجدد کی شرائط اور صفات
سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی سیرت کے حوالے سے ہم ایک مجدد کی اہم صفات وشرائط کو جن کا اس میں ہونا ضروری ہے، درج ذیل عناوین کے تحت بیان کر سکتے ہیں :
الف: ایک مجدد کا عقیدہ صحیح اور منہج سلامت ہونا چاہیے:
کیونکہ خود تجدید کے اہم ترین کاموں میں سے یہ کام ہے کہ اسلام کو تمام داخلی عناصر سے پاک اور صاف کیا جائے اور یہ اہم ترین مقصد اسی وقت ہی حاصل ہوسکتا ہے جب خود مجدد حضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم
[1] تاریخ الطبری نقلا عن التجدید فی الفکر الاسلامی،ص: ۸۷
[2] خامس الراشدین عمربن عبدالعزیز، للندوی، ص: ۳۰
[3] التجدید فی الفکری الاسلامی،ص: ۸۷