کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 134
بری اور بحری تجارت کی آزادی دی۔ آپ نے بنوامیہ، حجاج اور اس کے عمال کے دلدوز، وحشت ناک اور بہیمانہ مظالم سے براء ت کا اظہار کیا۔ اور حجاج کی پیروی پر شدت کے ساتھ انکار کیا۔[1] د: امربالمعروف اور نہی عن المنکر: بنو امیہ کی خلافتِ اپنے اصولی مقصد’’حفاظت دین ‘‘ سے دور ہوتی جارہی تھی۔ آپ نے آکر اس اصولی اور بنیادی مقصد کو حیاتِ نو بخشی۔ اور دین کی شان اور اس کا پرچم بلند کیا۔ اور دین کو ہربات پر مقدم اورحاکم قرار دیا۔ آپ نے اس باب میں جو بھی کامیابیاں حاصل کیں ان سب کی بنیاد رب تعالیٰ کا شدید خوف اور اس کی رضا کا حصول تھا۔ اور اس بابت خود آپ کے ایک جلیل القدر عالم اور مجتہد ہونے نے آپ کی بے حد مدد کی۔ [2] اور عمرو بن میمون نے آپ کے بارے میں یہاں تک کہہ دیا کہ ’’اگر علماء اور عمربن عبدالعزیز کا موازنہ کیا جائے تووہ آپ کے شاگرد نظر آتے ہیں ۔[3] آپ کے پختہ عقیدہ اور سلامتِ دین کا آپ کی تجدیدی اور اصلاحی کو ششوں پر بے حد گہرا اثر تھا۔ آپ نے بدعات ومنکرات اور اہل بدعت واہواء کا بھر پور مقابلہ کیا۔[4] جس کی تفصیل آگے آجائے گی۔ انشاء اللہ۔ امام اوزاعی کہتے ہیں : ’’جب تم کچھ لوگوں کو دیکھو کہ وہ عوام کو چھوڑ کر کسی بات کی بابت دینی گفتگو کرتے ہیں تو جان کہ ان کی بنیاد گمراہی پر ہے۔[5] آپ کے نزدیک وہ زندگی بیکار تھی جس سے احیاء سنت اور ازالہء بدعت کا کام نہ لیا جائے۔[6] اس لیے آپ کو لوگوں کے دین واخلاق کا بے حد اہتمام تھا۔ چنانچہ آپ نے عمال کو لکھ بھیجا کہ ’’نمازوں کے اوقات میں دوسرے کاموں میں ہرگز مشغول نہ ہوا جائے۔ پس جو نماز ضائع کر دے گا وہ دین کے دوسرے کاموں کو بدرجہء اولی ضائع کردے گا۔[7] آپ کے بے شمار خطوط ورسائل، مواعظ وخطبات اور وصایا ونصائح میں نگاہِ غور ڈالنے والادیکھے گا کہ آپ طاقتور ایمان کے مالک اور ر وز قیامت رب کے حضور کھڑے ہونے سے بے حد ڈرنے والے ا ور ہر وقت نفس کا مراقبہ کرنے والے تھے۔ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کی شخصیت اور سیاست عادلہ نے عامۃ الناس کی حیات، ان کے میلانات ورجحانات اور اذواق ورغبات پر گہرا اثر مرتب کیا۔[8] اس
[1] سیرۃ ومناقب عمر،ص: ۱۰۹۔۱۰۸ [2] التجدید فی الفکر الاسلامی،ص: ۸۵ [3] سیر اعلام النبلاء: ۵/۵۱۸ [4] التجدید فی الفکر الاسلامی،: ۸۶ [5] سیرۃ ومناقب عمر،ص:۸۳ لابن الجوزی [6] التجدید فی الفکر الاسلامی، ص: ۸۶ [7] سیرۃ ومناقب عمرہ بن الجوزی،ص: ۲۲۱ [8] التجدید فی الفکر الاسلامی،ص: ۸۶