کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 133
واپس لے کر جانا پڑتی۔ کیونکہ آپ نے لوگوں کو غنی کر دیا تھا۔[1] آپ کے نزدیک مسلمانوں کی حرمت مال کی حفاظت سے کہیں بڑھ کر تھی۔ چنانچہ آپ نے اپنے عاملوں کو لکھ بھیجا کہ مسلمان قیدیوں کو فدیہ دے کر چھڑائو چاہے اس کے لیے سارا مال کیوں نہ خرچ کرنا پڑے۔[2] بے شک جو لوگ آج بھی اس قلبی روگ اور تشکیکی مرض میں مبتلا ہیں کہ بھلا ایک خالص اسلامی اقتصادی نظام کیونکر قائم کیاجاسکتا ہے۔ سیّدناعمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی خلافت ایک تاریخ حقیقت بن کر ان کی زبانیں بند کرنے اور ان پر حجت قائم کرنے کے لیے کافی ہے کہ شریعت ربانیہ کو نظام حکومت بنانے میں ہی لوگوں کی دنیا وآخرت کی سعادت وفلاح کی ضمانت ہے۔ [3] ج: عدل: خلافت بنوامیہ میں عدل قائم کرنے میں سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا بہت بڑا بلکہ مرکزی حصہ اور کردار ہے۔ اور اس بابت آپ بلاشبہ اپنے جدا مجد خلیفہ راشد امیرالمومنین جناب عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کے بجا اور سچے وارث تھے۔آپ نے سرکاری سکوں پر یہ عبارت کندہ کرا رکھی تھی: ’’امراللہ بالوفاء والعدل‘‘ [4] ’’اللہ نے عدل وفاء کا حکم دیا ہے۔‘‘ آپ نے حکم دے رکھا تھاکہ آپ کے علم میں لائے بغیر کسی پر حد جاری نہ کی جائے۔[5] آپ نے امیر خراسان جراح بن عبداللہ حکمی کو لکھا کہ : اے ابن ام جراح! کسی مومن یاذمی کو ناحق کوڑا نہ مارنا، قصاص لینے سے بچنا کہ تم اس ذات کی طرف جانے والے ہو جو جیوں کے بھید او ر نگاہوں کی خیانت تک سے واقف ہے۔ اور تم اس روز اپنی وہ کتاب پڑھ ہوگے جو تمہارے چھوٹے بڑے کسی عمل کو لکھے بغیر نہ چھوڑے گی۔[6] آپ نے اہل ذمہ کے ساتھ انصاف کیا اور حکم دیا کہ ان کے ساتھ یا ان کے عبادت خانوں کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی نہ کی جائے۔ آپ نے اپنے عمال کو لکھ بھیجا کہ کسی گرجا، کنیسہ دَیر یا آتش کدہ کو جس پر تمہاری صلح ہوئی ہے منہدم نہ کرنا۔[7] آپ نے چنگی ختم کردی اور گزشتوں حکومتوں کے عائد کردہ بھاری بھاری ٹیکس خفیف کردیئے، لوگوں کو
[1] سیر اعلام النبلاء: ۵/۵۸۸ [2] سیرۃ عمر بن الجوزی،ص: ۱۲۰ [3] خامس الخلفاء الراشد بن عمر بن عبدالعزیز،ص: ۴۱۔۴۲ [4] سیرۃ ومناقب عمر لابن الجوزی، ص: ۹۸ [5] تاریخ الطبری: ۷/۴۷۴ [6] تاریخ الطبری: ۷/ ۴۶۴ [7] تاریخ الطبری: ۷/۴۷۷