کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 132
فر د تک اس کے مطالبہ اور خط لکھنے سے پہلے ہی اس کا حق پہنچادوں ۔[1]
اور فرمایا میں تم میں سے کسی سے زیادہ بہتر نہیں ہوں البتہ میں تم سب سے زیادہ زیر بار ہوں ۔[2]
آپ اپنے عمال سے اس بات کا مطالبہ کیا کرتے تھے کہ وہ جس کام پر بھی کسی مقرر کریں وہ دیندار اور باصلاحیت ہو، چنانچہ آپ نے اپنے ایک عامل کو خط میں لکھا کہ ’’مسلمانوں کے کاموں پر صرف اسی کو تعینات کرنا جس کی مسلمانوں کے ساتھ خیر خواہی معروف ہو اور وہ انہیں خیر پہنچانے کے لیے پورا زور لگاتا ہو۔ اور وہ ان کی امانت کی ادائیگی میں رعایت کرتا ہو۔‘‘[3]
مسلمانوں کے مالوں کی بابت احتیاط اور ورع اختیار کرنا، یہ محض آپ کی انفرادی اور شخصی سیاست ہی نہ تھی بلکہ آپ نے اپنے سب والیوں اور عمال کو بھی اس کا سختی کے ساتھ پابند بنایا، جس کی کچھ تفصیل گزشتہ اوراق میں بھی بیان کی جاچکی ہے۔ چنانچہ آپ نے اپنے والی ابو بکر بن حزم کو خط لکھا کہ ’’قلم کا باریک رکھو، سطریں قریب قریب لکھا کرو تاکہ سرکاری خزانے کا کاغذ کم سے کم استعمال ہو۔ کیونکہ میں مسلمانوں کے مالوں کو بیت المال سے نکالنا پسند نہیں کرتا۔[4]
آپ نے رعایا کے ساتھ رحمدلانہ سیاست اختیار کی۔ انہیں آسودہ اور خوشحال کیا، انہیں امن واطمینان کی دولت بخشی، سوال کی ذلت سے انہیں بچایا، محتاجوں میں اموال تقسیم کیے۔[5] اہل بصرہ کے ہر فقیر کو تین درہم عطا کیے۔ ہر ذمی کو پچاس پچاس دراہم سے نوازا۔ [6] اپنے عاملوں کو حکم لکھ بھیجا کہ جو حج پر جانا چاہے اس کے لیے سامان سفر مہیا کرو۔[7]
عاملوں کو حکم دیا کہ سرائے بنوائیں ۔ مسافر خانے تعمیر کریں تاکہ مسلمان مسافروں کو ایک دن ایک رات ٹھہرنے کا ٹھکانا میسر آسکے۔ جہاں وہ اپنے جانوروں کو آرام کر سکیں ۔ اور جو بیمار یا محتاج یا معذور ہو ں انہیں دو د ن دو راتیں ٹھہرنے کی اجازت دو اور جس کا دوران سفر توشہ ختم ہو گیا ہو اسے وطن تک پہنچنے کا زاد راہ دو۔[8]
سیّدنا عمر رحمہ اللہ کے دور میں زکوۃ لینے والے لوگ چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہ ملتے تھے۔ عمر بن اسید کا بیان ہے کہ سیّدنا عمر رحمہ اللہ نے اس وقت تک اس دنیا کو نہ چھوڑا یہاں تک کے یہ حال ہوگیا کہ ایک شخص مال زکوٰۃ لے آتا اور کہتا کہ اسے حسب منشا خرچ کر دیجئے مگر شام تک زکوٰۃ کا کوئی مستحق نہ ملتا اور اسے زکوٰۃ
[1] سیر اعلام النبلاء:۵/۵۸۶
[2] سیر اعلام النبلاء : ۵/۵۸۶
[3] تاریخ الطبری نقلاً عن التجدید فی الفکر الاسلامی،ص: ۸۱
[4] سیر اعلام النبلاء: ۵/۵۹۵
[5] تاریخ الطبری نقلا عن التجدید فی الفکر الاسلامی،ص: ۸۱
[6] تاریخ الطبری: ۷/۴۷۴
[7] تاریخ الطبری: ۷/۴۷۴
[8] تاریخ الطبری: ۷/۴۷۲