کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 131
تک گن گاتا ہے اور آپ کو مجددیت کے اس مقام پر کھڑا کرنے میں آپ کی اس طاقتور خلافت کا بڑا ہاتھ تھا، جو بے حد مضبوط اور وسیع وعریض تھی۔ البتہ یہ امر ملحوظ رہے کہ اگرہم سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے تجدیدی اور اصلاحی کارناموں کے حجم کا اندازہ کرنا چاہیں تو پہلے ہمیں اس دور کے انحرافات اور فساد اور بگاڑ کے حجم کا اندازہ کرنا ہوگا۔اورہمیں دیکھنا ہوگا کہ امت مسلمہ کی مجموعی حیات کس بگاڑ اور انقلاب کا شکار ہوچکی تھی جس سے خود امر خلافت بھی محفوظ نہ رہا تھا۔ البتہ اگرہم اس تغیر وانقلاب اور فسادو انتشار کو صرف نظام حکومت اور اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے مظالم اور بے انصافیوں تک محدود کریں تویہ کسی حقیقت کا انکار نہ ہوگا کیونکہ اس دور میں عامۃ الناس کی زندگی پر ابھی تک نبوت کے انوارات کابے پناہ اثر باقی تھا اور ان کی زندگیوں پر ابھی تک دین ہی حاکم وسلطان تھا۔ اور دلوں پر دین کی ہی حکومت تھی۔[1] آیئے! ذیل کے اور اق میں ہم سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے تجدیدی اعمال اور اصلاحات پر اختصار کے ساتھ روشنی ڈالتے ہیں ۔ (۱)…سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے تجدیدی اعمال اور اصلاحات الف: شوریٰ: گزشتہ صفحات میں ہم اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو کر چکے ہیں کہ آپ نے خلافت سنبھالتے ہی لوگوں کے سامنے سب سے پہلے بات ہی یہ رکھی کہ مجھے یہ خلافت میری اور خود عوام کی رائے کے بغیر سپرد کی گئی ہے۔ اس لیے، میں عوام کو اس بیعت سے آزاد کر کے انہیں اپنی مرضی سے خلیفہ چن لینے کا اختیار دیتا ہوں ۔ گویا کہ اپنے اس عمل سے آپ نے اپنے تجدیدی اعمال کا آغاز کر دیا کہ لوگوں کو ظالم حکومت کے پنجہ استبداد سے آزاد کردیا اور انہیں کسی ایسے حاکم کے قبول کرنے پرمجبور نہ کیا جس کا انتخاب انہوں نے خود نہ کیا ہو۔ بلکہ آپ نے معاملہ ان کے ہاتھ میں دے کر ان کو شوریٰ کے حوالے کر دیا۔[2] ب: حکومت اورعمال کی تعیناتی میں امانت وایماندار ی کو معیار بنانا: اس بابت متواتر آثار مروی ہیں کہ آپ کو آغاز خلافت سے ہی امر خلافت کی بھاری ذمہ داری کا شدت کے ساتھ احساس تھا۔ چنانچہ ایک دفعہ جب کسی نے آپ کو بے حد غم زدہ دیکھ کر اس کی وجہ پوچھی تو آپ نے جواب میں یہ کہا’’میرے جیسا آدمی کیوں نہ غم زدہ ہو، مجھے ہر وقت یہ غم کھائے جاتا ہے کہ میں امت کے ہر
[1] عمربن عبدالعزیز رحمہ اللّٰه للندوی،ص: ۱۰ [2] التجدید فی الفکر الاسلامی،ص: ۷۹ از دکتور عدنان محمد