کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 129
اور فرمایا: اے اللہ ! میں اس بات سے تیری پناہ پکڑتا ہوں کہ تو اپنی نعمت کو بدل دے یاکسی نعمت کے زوال پر میں تیری ناشکری کروں یا یہ کہ میں تیری نعمت پر تیری حمد وثنا کرنا بھول جائوں ۔[1]
اوریہ دعا تو آپ کثرت کے ساتھ مانگا کرتے تھے: اے اللہ! تو مجھے اپنے فیصلے پر راضی کردے اور اپنی تقدیر پر مجھے برکت دے یہاں تک کہ میں اس بات کی عجلت کی تمنا نہ کروں جو تو نے موخر کردی اور نہ اس شے کی تاخیر کی خواہش کروں جو تو نے ابھی بھیج دی۔ [2]
بے شک سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ مستجاب الدعاء تھے۔ ابن عبدالحکم کی روایت ہے کہ ابن ریان، ولید بن عبدالملک کا جلاد تھا، خلیفہ بننے کے بعد آپ نے ابن ریان کی گمراہی اور سفا کی کویاد کیا اور اسے جلادی کے عہدے سے معزول کر دیا اور یہ دعا مانگی کہ اے اللہ! میں نے اِسے تیرے لیے نیچا کیا ہے اس کو کبھی اوپر نہ کرنا، پھر جیسے ابن ریان کا ذکر مٹ گیا ایسا کسی کا نہ مٹا۔[3]
جب آپ حج کے ارادے سے نکلے اور آپ کو مکہ داخل ہونے سے پہلے جب اس بات کی خبر دی گئی کہ مکہ میں پانی کی قلت ہے تو آپ نے دعا مانگی۔ جو اللہ نے قبول فرمائی اور مکہ پر بارش فرما کر اس کی سرزمین کو جل تھل کر دیا۔ یہ واقعہ خلیفہ بننے سے پہلے اور آپ کے مدینہ کے والی ہونے کے زمانہ کا ہے۔[4]
جب آپ کا غیلان سے مناظرہ ہواتو آپ نے یہ دعا مانگی ’’اے اللہ! اگرتیرا بندہ غیلان سچا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ اس کو سولی چڑھا دے۔‘‘ چنانچہ آپ کے بعد ہشام بن عبدالملک کے دورخلافت میں اس کو پھانسی دے دی گئی۔[5]
۲… سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے تجدیدی آثار
جوآدمی بھی علماء وفقہاء اور مورخین کے اقوال کا تتبع کرے گا اور وہ تجدیدی تحریکوں کے مطالعہ کا اہتمام کرنے والوں کے اقوال کو تلاش کرے گا تو وہ دیکھے گا کہ اس بات پر سب کا اجماع ہے کہ خلیفہ راشد سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ اسلام کے مجدد اوّل تھے۔[6]آپ پر لفظ مجدد کا اطلاق سب سے پہلے امام محمد بن شہاب زہری نے کیا تھا، پھر ان کی اتباع میں امام احمد بن حنبل نے بھی آپ کو مجدد کا لقب دیا۔ چنانچہ امام احمد کی روایت ہے : ’’حدیث میں آتا ہے کہ رب تعالیٰ ہر سو سال کے خاتمہ پر ایک ایسے شخص کو کھڑا کرے گا جو اس امت کے امر دین کی تصحیح کرے گا۔ چنانچہ جب ہم نے پہلے سوسال کے خاتمہ پر غور کیا (کہ ایسا آدمی کون
[1] الکتاب الجامع لسیرۃ عمر: ۱/۳۴۳۔
[2] الکتاب الجامع لسیرۃ عمر: ۱/۳۴۴
[3] سیرۃ عمر ابن عبدالحکم،ص: ۳۰
[4] البدایۃ والنھایۃ،نقلا عن الآثار الوا ردۃ: ۱/۱۸۳
[5] الشریعۃ للآجری: ۱/۴۳۸
[6] عون المعبود: ۱۱/۳۹۳ لشمس الحق عظیم آ بادی