کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 128
کا علاقہ اہل دیر اسحاق کے حوالے کر دیا گیا۔[1]بے شک کتب تاریخ وسیر سیّدنا عمربن عبدالعزیز کے عدل کے واقعات سے معمورہیں ہم نے بطور نمونہ کے محض چند واقعات نقل کیے ہیں ۔ گریہ وزاری، دعا والحاح اور قبولیت دعا: سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ اپنے رب کے حضور بے حدگریہ وزاری کرتے تھے اورکثرت کے ساتھ دعا مانگا کرتے تھے۔ آپ اپنی دعائوں میں یہ کہا کرتے تھے، ’’اے میرے پروردگار ! تو نے مجھے پیدا کیا، مجھے برائیوں سے روکا۔ اور اپنے حکم کی تابعداری کرنے پرمجھے ثواب دینے کا وعدہ فرمایا اور نواہی کے ارتکاب پر اپنے عقاب سے ڈرایا اورمجھ پر میرا ایسادشمن مسلط کیا جس کو میرے دل میں ٹھکانا دیا (یعنی شیطان) اور اسے میری رگ رگ میں خون کی طرح دوڑایا پس اگر تو میں کسی برائی کا ارادہ کروں تو وہ میری حوصلہ افزائی کرتا ہے اور اگر میں کسی نیکی کا ارادہ کروں تو وہ مجھے نیکی کرنے سے باز رکھتا ہے۔ میں اس سے غافل ہو بھی جائوں تو بھی وہ مجھ سے غافل نہیں ہوتا۔ میں اس کو بھول جاتاہوں پروہ مجھے نہیں بھولتا۔ وہ میرے سامنے شہوتوں کو کھڑا کرتا ہے، شبہات کو میرے آڑے لاتا ہے اگر تو اس کے مکر کو مجھ سے نہ موڑے گا تو وہ مجھے ذلیل کرکے اپنا غلام بنالے گا۔ اے اللہ! تو اپنی اس قدرت سے جو تیری اس پر ہے، اس کی قدرت کو مقہور کردے جو اس کی مجھ پر ہے، یہاں تک کہ میں تیرے کثرت ذکرکے ساتھ اس کو اپنے قابو میں کرلوں ، تاکہ میں ان لوگوں کے ساتھ ہوجائوں جو تیری پناہ میں آتے ہیں اور تیرے سوا کوئی نیکی پر چلانے والا اوربرائی سے روکنے والا نہیں ۔[2] آپ یہ دعا بھی مانگا کرتے تھے: ’’اے اللہ! امت محمدیہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اصلاح حال فرما اورجس کے ہلاک کرنے میں اس امت کی صلاح اورفلاح ہے اس کو ہلاک فرما۔[3] آپ کی ایک دعایہ بھی تھی: اے اللہ! مجھے عافیت کا لباس پہنا یہاں تک کہ تو مجھے فراغت کی زندگی نصیب کرے اور میرا خاتمہ اپنی مغفرت پر کرنا تاکہ میرے گناہ آخرت میں مجھے نقصان نہ دیں ۔ اور جنت تک پہنچنے سے پہلے کے ہر ہول سے میری کفایت کر یہاں تک کہ اپنی رحمت سے مجھے جنت تک پہنچا دے اے سب سے بڑھ کر رحم کرنے والے۔[4] مورخین نے آپ رحمہ اللہ کی یہ دعا بھی ذکر کی ہے : اے اللہ! میں نے تیری اس بات میں اطاعت کی ہے جو تجھے سب سے زیادہ محبوب ہے اور وہ توحید ہے اور میں نے تیری اس بات میں نافرمانی نہیں کی جو تجھے سب سے زیادہ مبغوض ے اور وہ ہے شرک پس تو ان دونوں کے درمیان کی میری لغزشیں معاف فرما۔[5]
[1] سیرۃ عمرلابن الجوزی،ص:۹۱ [2] الکتاب الجامع لسیرۃ عمر: ۱/۳۴۱۔ [3] الکتاب الجامع لسیرۃ عمر: ۱/۳۴۲۔ [4] الکتاب الجامع لسیرۃعمر: ۱/۳۴۳۔ [5] سیرۃ عمر لابن الجوزی:۲۳۰