کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 127
میں ان دونوں موضوعات عدل وانصاف اور رد مظالم پر کافی حد تک روشنی ڈالی جاچکی ہے۔ سب علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ ائمہ عدل، ائمہ مہدیین اور خلفائے راشدین میں سے تھے۔ [1] اور اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ کا اس بات پر ایمان تھا کہ عدل اس کائنات میں نوامیس الٰہی میں سے ایک ناموس اور رازہے اور ایمان کا ثمرہ ہے او رعدل ان مومنوں کی صفت ہے جو قواعدِ حق سے محبت رکھتے ہیں ۔ دوسرے آپ کے عادلانہ رویہ کی وجہ اس بات کا شدت کے ساتھ احساس بھی تھا کہ پہلے امراء اور خلفاء نے لوگوں پر بے پناہ ظلم ڈھارکھے تھے اور آپ کے عدل کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ خود رب تعالیٰ نے عدل واحسان کا حکم دیا تھا اوریہ کہ عدل واحسان سب آسما نی شریعتوں کی بنیاد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کی محبت نے آ پ کے دل میں عدل واحسان کی محبت کو راسخ کر دیا تھا۔ چنانچہ آپ نے عدل کی اقدار کو زندہ کیا۔ [2] آجری روایت کرتے ہیں کہ کہ اہل حمص کا ایک ذمی آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر کہنے لگا اے امیر المومنین! میں آپ سے رب کی کتاب (کے ذریعے فیصلہ کرنے) کا سوال کرتا ہوں ۔ آپ نے پوچھا وہ کیا ہے ؟ بولا عباس بن ولید بن عبدالملک نے میری زمین غصب کر لی ہے۔ اور عباس اسی مجلس میں سامنے بیٹا ہوا تھا۔ آپ نے عباس کی طرف التفات کرتے ہوئے پوچھا، ’’عباس ! کیا کہتے ہو؟ عباس کہنے لگا: امیر امومنین ! وہ زمین مجھے ولیدبن عبدالملک نے دی تھی اور مجھے اس کا پروانہ بھی دیا تھا۔ یہ جواب سن کر آپ نے ذمی سے کہا: ’’ اے ذمی! اب تم کیا کہتے ہو؟‘‘ ذمی نے پھر یہی کہا’’اے امیر لمومنین ! میں آپ سے رب کی کتاب سے فیصلے کا سوال کرتاہوں ۔ تب آپ نے فرمایا، ’’اللہ کی کتاب ولید کی کتاب سے زیادہ اس بات کی مستحق ہے کہ اس کی اتباع کی جائے۔ اے عباس! اس کی زمین اسے واپس کردو، چنانچہ عباس نے وہ زمین ذمی کو واپس کردی۔[3] حکم بن عمر عینی بیان کرتے ہیں کہ میں مسلمہ بن عبدالملک کے پاس تھا۔ وہ ناعورہ[4] کی جائیداد کی بابت عمربن عبدالعزیز کے سامنے اہلِ دیر اسحاق کے ساتھ جھگڑ رہے تھے۔چنانچہ سیّدنا عمر رحمہ اللہ نے مسلمہ سے فرمایا تیرے خصم میرے سامنے کھڑے ہیں اس لیے انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ تم تکیوں کے ساتھ ٹیک لگا کر نہ بیٹھو۔ البتہ تم جس کو چاہو اپنا وکیل خصومت بناسکتے ہو۔ وگرنہ فیصلہ تمہارے خلاف ہوسکتا۔ پھر اہل دیر نے حاضر ہو کر مسلمہ کے خلاف اپنے وکیل خصومت کو پیش کیا جس پر فیصلہ مسلمہ کے خلاف کردیا گیا اور ناعورہ
[1] البدایۃ والنھایۃ نقلاً عن النموذج الاداری،ص: ۱۶۳ [2] النموذج الاداری،ص: ۱۶۳۔۱۶۴ [3] خبارابی حفص،ص: ۵۸ [4] ناعورہ: یہ حلب سے آٹھ میل کے فاصلے پر حلب اور بالس کے درمیان واقع ایک جگہ کا نام ہے۔