کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 126
مانگنے لگو جس کے لیے میں اس حق کا مطالبہ کررہا ہوں تو میں تم لوگوں کو ابھی رسواء کر کے رکھ دیتا۔ لیکن میں فتنہ سے ڈرتا ہوں ۔ اگر اللہ نے مجھے زندگی دی تو میں ان شاء اللہ ہر حق والے کو اس کا حق لوٹا کے رہوں گا۔ [1]
سیّدنا عمربن عبدالعزیز جب کسی کام کو شروع کرتے تھے تو اس کو پورا کرکے رہتے تھے۔ ایک دن آپ کوبنی مروان کے ایک صاحب نے خط لکھ کر شدید غصہ دلایا تو آپ نے فرمایا، بے شک اللہ ایک دن بنی مروان کو ذبح کرے گا اور اللہ کی قسم! یہ لوگ میرے ہاتھ سے ذبح ہوں گے۔ جب بنی مروان کو یہ خبر پہنچی تو رک گئے کیونکہ انہیں اس بات کا پکا علم تھا کہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ جب کسی کام کا ارادہ کرلیتے ہیں تو اسے کرگزرتے ہیں ۔[2]
رہے وہ لوگ جومسلمانوں کا شیرازہ بکھیر کر ان میں فتنہ پھیلانا اور ان کے خلاف خروج کرنا چاہتے تھے توآپ نے ان کے ساتھ بات چیت اور مناظرہ کا اسلوب اختیار کیا۔ یہ لوگ خوراج تھے۔ اس جماعت کی بنیاد ۱۰۰ھ میں شوذب خارجی نے رکھی تھی۔ شوذب نے دراصل بنی امیہ کے خلاف بغاوت برپا کی تھی۔ آپ نے ان کے ساتھ مذاکرات کا رستہ اس لیے اختیار کیا تاکہ انہیں حق پر لاسکیں ، آپ کی رائے تھی کہ اگرتو حق ان کی باتوں میں ہے تو ان میں غور کیا جائے وگرنہ یہ لوگ بھی اس حکم میں داخل ہوں گے جس میں دوسرے لوگ داخل ہیں ۔ لیکن جب آپ کو خوارج کی بابت اس بات کا علم ہوا کہ وہ بڑی بے رحمی سے ان کاخون بہا دیتے ہیں اور ہر جگہ فتنہ برپا کر دیتے ہیں تو آپ نے نہایت دور اندیشی اور پختہ عزم کے ساتھ ان کے خلاف کاروائیاں بھی کیں ۔ چنانچہ آپ نے عراق کے عامل کو لکھ بھیجا کہ ’’ان کو انگیخت نہ کرنا مگر اس وقت جب یہ خونریزی کریں یا زمین میں فتنہ پھیلائیں ۔ چنانچہ جب یہ ایسا کریں تو ان کا رستہ چھوڑ کر ان کے پاس کسی دور اندیش حاذق اور سمجھ دار شخص کو بھیجنا اور اس کے ساتھ فوجی جوان بھی بھیجنا اور جو میں حکم دوں وہ کرنا۔[3]
یہ تھی سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی حزم واحتیاط اور دور اندیشی کہ آپ نے نہایت محتاط اقدامات کیے جو اپنی اہمیت اور حساسیت میں بے حد بلند مرتبہ تھے۔ اور آپ کو اس محتاط رویے کا امور مملکت چلانے میں زبردست ایجابی رد عمل ملا۔ جس سے آپ کو عدل وانصاف، امن وسلامتی اور خلافتِ راشدہ کے آثار قائم کرنے میں بے حد آسانی ہوئی۔[4]
عدل وانصاف:
سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے دور خلافت پراگر ایک گہری نگاہ ڈالی جائے تو صاف نظر آئے گا کہ عدل وانصاف علی الاطلاق آپ کی قائد انہ صفات میں سے سب سے بڑی اور نمایاں صفت تھی۔ گزشتہ صفحات
[1] العقدالفرید:۵/۱۷۳
[2] النموذج الاداری المستخلص من ارادۃ عمر،ص: ۱۵۸
[3] تاریخ الطبری:۷/۴۵۹
[4] النموذج الاداری المستخلص من ادارۃ عمر،ص: ۱۶۳