کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 125
آپ نے ایک دفعہ خطبہ میں فرمایا: ’’جب بھی کسی کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے اور وہ اس پر اناللّٰہ واناالیہ راجعون…‘‘پڑھتا ہے تو اس پر رب تعالیٰ اسے جو اجر دیتے ہیں وہ اس سے بہتر ہوتا ہے جو اس سے لے لیا ہوتا ہے‘‘ اورفرمایا ’’راضی رہنے والے لوگ کم ہوتے ہیں اورمومن کا سہارا صبر ہوتا ہے۔‘‘ اسی طرح فرمایا: ’’جو بغیر علم کے عمل کرتا ہے ، وہ بگاڑ زیادہ پیدا کرتا ہے اوراصلاح کم کرتا ہے۔ اور جس کا کلام اس کے عمل سے زیادہ ہوتا ہے اس میں خطا کی کثرت ہوتی ہے۔ اور رب پر راضی رہنے والے کم ہوتے اور مومن کا بھروسہ اللہ پر ہوتا ہے۔‘‘[1] آپ نے اپنی زندگی میں جس بات پر سب سے زیادہ صبر کیا وہ امر خلافت تھا۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں : میں تخت خلافت پر محض اس ڈر سے بیٹھا ہوں کہ کہیں اس مقام پر کوئی نااہل نہ بیٹھ جائے۔ اگر جو میں کرتا ہوں اس میں میری اطاعت کی جائے تومیں یہ امرخلافت اس کے مستحقین کے حوالے کردوں لیکن میں صبر کر رہا ہوں ۔ یہاں تک کہ اللہ کا کوئی امر آئے یا فتح آئے۔[2] حزم واحتیاط: جس وقت امت مسلمہ اور خلافت کے امر کو اور بالخصوص والیوں ، امراء اور عاملین کے امر کو حزم واحتیاط کی اشد ضرورت ہوتی تھی رب تعالیٰ نے عین اس وقت میں آپ کو اس صفت سے نوازا اور اس کے ساتھ آپ کو مزین کیا تھا۔ چنانچہ آپ حزم واحتیاط اورضبطِ امور کی صفت کے ساتھ آراستہ تھے اور جس بات میں عام بھلائی اورمسلمانون کا نفع دیکھتے اس میں کبھی سستی سے کام نہ لیتے۔ چنانچہ آپ نے حزم واحتیاط کی متعدد صورتوں کو متعدد میدانوں میں استعمال کیا۔ جیسے آپ نے بنی امیہ کے اشراف وامراء کے ساتھ اور ان لوگوں کے ساتھ بڑی دور اندیشی اور احتیاط سے کام لیا جو مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کرنا چاہتے اور فتنوں کو بھڑکا کر خونریزی برپا کرنا چاہتے اور وہ بغاوت کی فضاء قائم کرنا چاہتے تھے۔ بنی مروان کے ساتھ آپ کا موقف بتلاتاہے کہ آپ کس قدر دور اندیش اورعاقبت اندیش تھے۔ چنانچہ آپ نے انہیں کہا: تمہارے ہاتھوں میں جوکچھ ہے وہ بیت المال میں دے دو، اور مجھے اس بات پر مجبور نہ کرو جو مجھے ناگوار ہے تاکہ جس کے نتیجہ میں تمہیں کسی ناگوار بات پر آمادہ نہ کروں ۔ آپ کی اس بات کا کسی نے جواب نہ دیا۔ آپ نے کہا مجھے جواب دو، اس پرایک آدمی بولا: اللہ کی قسم! جو مال ہمیں ہمارے آباء اجداد سے ملا ہے ہم وہ تو واپس نہ کریں گے کہ جس سے اپنی اولادوں کو تو فقیر بنا دیں اور خود اپنے آباء کے ناشکرے بنیں یہاں تک کہ ہماری گردنیں اڑا دی جائیں ۔ اس پر آپ نے فرمایا’’ اللہ کی قسم! اگر یہ بات نہ ہوتی کہ اگر تم میرے خلاف اس شخص سے مدد نہ
[1] الکتاب الجامع لسیرۃ عمربن عبدالعزیز:۲/۴۲۸ [2] النموذج الاداری المستخلص من ادارۃ عمر،ص: ۱۴۴