کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 124
میرے ساتھ کرو گے۔ جائو اللہ مجھے اور تجھے معاف کرے، چلے جائو۔‘‘[1] ایک دفعہ آپ کا ایک بچہ آپ کے پاس روتا ہوا آیا۔ آپ نے رونے کی وجہ پوچھی تو بولا، مجھے فلاں غلام نے مارا ہے۔ آپ نے غلام کو طلب کر کے پوچھا کہ کیا تم نے واقعی اسے مارا ہے؟ اس نے اقرار کیاکہ ہاں اُس نے اِسے مارا ہے۔ اس پر آپ نے فرمایا: ’’جائو چلے جائو اگر میں کسی کو سچ بولنے پر سزا دیتا تو تمہیں دیتا۔ چلے جائو‘‘ اور اسے کچھ بھی نہ کہا۔[2] یہ چند واقعات مشتے ازخروارے کے بمصداق ہیں وگرنہ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی داستانِ عفوو درگزر اورحلم وبرداشت بے حد طویل ہے۔ صبر و ثبات: آپ کو رب تعالیٰ نے صبر وشکر کی نعمتوں سے بھی نواز رکھا تھا۔ اپنے بیٹے عبدالملک کی وفات کے بعد اس کی قبر پر حاضر ہوئے اور کہا قبر کو زیادہ گہرا مت کرو کیونکہ اوپر کی زمین نیچے کی زمین سے افضل ہوتی ہے۔[3] ایک روایت میں آتا ہے کہ جب آپ کا بیٹا عبدالملک، بھائی سہل اورخادم خاص مزاحم تینوں کا انتقال ہوگیا تو ایک شامی کہنے لگا: اللہ کی قسم ! امیر المومنین بہت بڑی آزمائش میں مبتلا کیے گئے ہیں ۔ ان کا بیٹا عبدالملک انتقال کر گیا۔ اللہ کی قسم ! تم نے ایسا بیٹا دیکھا نہ ہوگا جوباپ سے بڑھ کر باپ کو نفع پہنچانے والا تھا۔ پھر امیرالمومنین کا بھائی انتقال کرگیا۔ اللہ کی قسم! تم نے کسی بھائی کو اس سے بڑھ کر اپنے بھائی کو نفع پہنچانے والا نہ دیکھا ہوگا۔‘‘ لیکن اس شامی نے مزاحم کے بارے میں کوئی بات نہ کی۔ آپ نے پوچھا’’تم مزاحم کے بارے میں کیوں خاموش رہے ؟ اللہ کی قسم! وہ میرے نزدیک ایک ان تینوں میں کم درجہ کا نہیں ۔ پھر آپ نے دویا تین مرتبہ یہ کہا’’اے مزاحم اللہ تم پر رحم کرے۔ اللہ کی قسم! تم نے بہت ساری دنیا میں کفایت کی اور تم آخرت کے معاملہ میں بہترین وزیر تھے۔[4] حفص بن عمرسے روایت ہے، وہ کہتے ہیں : جب سیّدنا عمربن عبدالعزیز کے بیٹے عبدالملک کا انتقال ہوا تو آپ نے اس کی قبر کے پاس کھڑے ہو کر اس کی تعریف بیان کی۔ اس پر مسلمہ نے پوچھا:’’اگر یہ زندہ رہتا تو کیا آپ اس کواپنا والی بناتے؟‘‘ آپ نے فرمایا: ’’نہیں ‘‘ مسلمہ بولے: حالانکہ آپ اس کی اتنی تعریف بھی کررہے ہیں ؟ آپ نے فرمایا: ’’مجھے اس بات کا ڈرہے کہ مجھے اس کی محبت وہ شے مزین کر کے دکھا دے جو ایک باپ کی اپنی اولاد سے محبت نگاہوں میں مزین کر کے دکھاتی ہے۔[5]
[1] الکتاب الجامع لسیرۃ عمربن عبدالعزیز: ۲/۴۲۵ [2] ایضًا [3] الکتاب الجامع لسیرۃ عمربن عبدالعزیز: ۲/۴۲۷ [4] ایضًا [5] ایضًا