کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 123
ابراہیم بن ابی عبلہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک دن سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ ایک آدمی پر بے حد ناراض ہوئے، چنانچہ آپ کے حکم پر اسے رسیوں میں جکڑ کر لائے مگر اس سے پہلے کہ اسے کوڑے مارے جاتے آپ نے اس کارستہ چھوڑ دینے کا حکم دے دیا اور فرمایا: اگرمجھے تجھ پر غصہ نہ آیا ہوتا تو میں تمہیں خوب سزا دیتا۔ پھر یہ آیت تلاوت فرمائی :
{وَ الْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ} (آل عمران: ۱۳۴)
’’اور غصے کو روکتے اور لوگوں کے قصور معاف کرتے ہیں ۔‘‘
عبدالملک بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ قیلولہ کرنے اٹھے تو ایک آدمی ہاتھ میں ایک لپٹا ہوا صحیفہ لیے سامنے آگیا لوگ سمجھے کہ وہ امیر المومنین کو کوئی نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔ اور اس آدمی کو بھی اندیشہ لاحق ہوگیا کہ شاید مجھے امیر المومنین سے ملنے سے روک دیاجائے۔ چانچہ اس نے دور سے ہی وہ پروانہ آپ کی طرف دے مارا جو آپ کے منہ پر جالگا اور آپ کاچہرہ زخمی کردیا۔ میں نے دیکھا کہ آپ دھوپ میں کھڑے ہیں اور آپ کے چہرے سے خون بہہ رہا ہے۔ پھر آپ نے پروانے کی عبارت پڑھی اور اس کی حاجت پوری کرنے کا حکم دیا اور اس کا رستہ چھوڑ دیا۔[1]کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے آپ کو برا بھلا کہا مگر آپ خاموش رہے۔ کسی نے کہا کہ آپ اس سے بدلہ کیوں نہیں لیتے ؟ توآپ نے فرمایا: ’’جسے خوف خدا ہوتا ہے اس کی زبان کو لگا م ہوتی ہے۔‘‘[2]
حاتم بن قدامہ کا بیان ہے کہ آپ خطبہ دے رہے تھے کہ ایک آدمی نے اٹھ کر یہ کہا’’میں گواہی دیتاہوں کہ تم فاسق ہو۔‘‘ آپ نے اس سے پوچھا تمہیں اس کی خبر کیسے لگی؟ بولا’’ا ور تم جھوٹے گواہ ہو ہم تمہاری گواہی قبول نہ کریں گے؟ [3] کہتے ہیں کہ خلیفہ بننے کے بعد ایک رات آپ ایک محافظ کے ساتھ سحری کے وقت مسجد کی طرف نکلے۔ ایک آدمی رستے میں سویا ہوا تھا جس کے ساتھ آپ کی ٹکر ہوگئی۔ وہ ہڑ بڑا کراٹھا اور کہنے لگا’’کیا تم پاگل ہو؟‘‘ آپ نے کہا: نہیں ۔ اتنے میں وہ محافظ مارنے کو دوڑا تو آپ نے اسے روک کر کہا’’اس نے مجھ سے پوچھاتھا کہ کیا تم پاگل ہو جس کا میں نے جواب دے دیاہے کہ نہیں ۔‘‘[4]
ایک روایت یہ بھی ہے کہ آپ منبر پر کھڑے خطبہ دے رہے تھے کہ ایک آدمی نے اٹھ کر خوب اناپ شناپ کی اور آپ کو غصہ دلایا، اس پرآپ نے اس آدمی سے یہ کہا: اے بندئہ خدا! کیاتم یہ چاہتے کہ میں سلطانی کے غرور میں آکر شیطان کاچوکاکھالوں اور آج تیرے ساتھ وہ کر ڈالوں جو کل تم اس کے بدلے میں
[1] حلیۃ الاولیاء: ۵/۳۱۱
[2] سیرۃ عمرلابن الجوزی،ص: ۲۰۸
[3] الکتاب الجامع لسیرۃ عمربن عبدالعزیز:۲/۴۲۴
[4] الکتاب الجامع لسیرۃ عمر:۲/۴۲۵