کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 122
مورخین نے بے شمار ایسے واقعات رقم کیے ہیں جو آپ کے ورع پر دلالت کرتے ہیں ۔ آپ مسلمانوں کے تھوڑے سے تھوڑے مال سے دور رہنے کوبھی شبہ سے دور رہنے کے باب سے شمار کرتے تھے۔ اسی لیے آپ دین میں احتیاط کی بنا پر شبہات تک سے دور رہتے تھے۔[1] اور اس کی وجہ یہ ہے کہ امور تین قسم کے ہوتے ہیں جیساکہ خود سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ فر ماتے ہیں : ۱۔ وہ امور جن کا حلال اور ہدایت ہونا واضح ہے، ان کی اتباع کی جائے گی۔ ۲۔ وہ امور جن کا خطا اور حرام ہونا واضح ہے ان سے بچا جائے گا۔ ۳۔ وہ امور جن کے حلا ل یا حرام ہو نے میں اشکال ہے، ان سے توقف کیا جائے گا۔[2] آپ سے جب اہل صفین کے بارے میں پوچھا جاتاتھا توبے مثال ورع کا ثبوت دیتے ہوئے فقط یہ کہنے پر اکتفاء فرماتے تھے کہ یہ وہ خون ہیں جن سے رب تعالیٰ نے میرے ہاتھوں کو محفوظ رکھا ہے میں اپنی زبان کو اس خون سے رنگنا ہر گز پسند نہ کروں گا۔ [3] یہ واقعہ بتلاتا ہے کہ سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ زندگی کے ہر شعبے میں ورع سے کام لیتے تھے۔ حتی کہ اپنے کھانے پینے، ضرورت و خواہش اور مال مسلمین سب میں ورع سے کام لیتے تھے۔ بے شک ایسا ورع قوی ایمان آخرت کے استحضار اور جوابدہی کے احساس سے پیدا ہوتا ہے۔ آپ کا ورع ایسی بلند حد تک جاپہنچاتھا کہ آپ نے اپنی قبر کی جگہ بھی قیمتاً خریدی۔ تاکہ آپ کے پاس دنیا کی جو چیز بھی ہو وہ مال کے بدلے میں ہو حتی کہ قبر کی جگہ بھی۔[4] حلم وبرداشت اور عفوودرگزر: سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی شخصیت جن صفات جلیلہ سے مرکب تھی ان میں ایک نمایاں صفت عفوودرگزر اور حلم وبرداشت کی بھی تھی۔ شیخ خناصر یین سے روایت ہے وہ کہتے ہیں : سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا فاطمہ بنت عبدالملک سے ایک بیٹا تھا۔ ایک دن وہ دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلنے نکلا تو ایک غلام نے اس کا سرزخمی کردیا۔ لوگ آپ کے بیٹے اور سرزخمی کرنے والے دونوں کو فاطمہ کے پاس لے آئے؟ بیٹے کو زخمی دیکھ کر ماں رونے پیٹنے لگی۔ اس وقت آپ ایک دوسرے گھر میں تھے۔ آپ نے شور کی آواز سنی تو باہر نکلنے۔ اتنے میں اس لڑکے کی ماں آنکلی۔ اس نے بتلایا کہ میرا بیٹا یتیم ہے۔ آپ نے پوچھا ’’کیا اس کا بیت المال سے وظیفہ مقرر ہے ؟ بولی نہیں توآپ نے اس کا وظیفہ مقرر کردیا۔ اس پر فاطمہ نے اعتراض کیا تو آپ نے انہیں ڈانٹتے ہوئے فرمایا: ’’تم لوگوں نے اس بچے کو گھبراہٹ میں مبتلا کردیا تھا۔‘‘[5]
[1] الآثار الواردۃ فی عمربن عبدالعزیز فی العقیدۃ: ۱/۱۶۵ [2] العقد الفرید: ۴/۳۹۷ [3] سیرۃ عمرلابن الجوزی،ص: ۱۹۵ [4] النموذج الاداری المستخلص من ادارۃ عمر،ص: ۱۵۶ [5] سیرۃ عمرلابن الجوزی،ص: ۲۰۷