کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 121
یہ واقعہ بھی آپ کے ورع کی غمازی کرتا ہے۔ آپ کا ایک غلام لگن میں گرم پا نی لے کرآتا تھا۔ جس سے آپ وضو کرتے تھے۔ ایک دن آپ نے غلام سے کہا : کیا تم یہ لگن لے کر مسلمانوں کے مطبخ میں جاتے ہو اور وہاں جارکھتے ہو تاکہ وہاں کے چولہے سے یہ لگن اور اس کاپانی گرم ہوجائے۔ پھر اسے میرے پاس لے آتے ہو؟ غلام نے کہا: اللہ آپ کا بھلا کرے! یہی بات ہے۔ تو آپ نے فرمایا: بندئہ خدا! تونے ہمارامعاملہ ہم پر خراب کر دیا۔ پھر آپ نے مزاحم کو بلا کر اسے حکم دیا کہ دیکھو اس لگن کے نیچے کتنی لکڑی ڈالنے سے اس کا پانی گرم ہوتا ہے۔ آپ نے وہ لکڑی دیکھی، پھر جتنے دن وہ غلام گرم پانی لاتا رہا تھا اس کا حساب لگایا، اس کے بعد اتنی لکڑی مطبخ بھجوادی۔[1]
آپ کے ورع کا یہ عالم تھا کہ آپ اپنے کسی عامل سے یاکسی ذمی سے اس ڈر سے کوئی ہدیہ قبول نہ کرتے کہ کہیں یہ رشوت نہ شمار ہوجائے۔عمرو بن مہاجر بیان کرتے ہیں کہ ایک دن سیّدنا عمربن عبدالعزیز کا سیب کھانے کو دل چاہا۔ آپ کے منہ سے نکل گیا کہ کاش ہمارے پاس سیب ہوتا تو کھالیتے۔ کیونکہ اس کی خوشبو بھی عمدہ ہوتی ہے اس اس کی غذائیت بھی بے حد عمدہ ہوتی ہے۔ اس پر گھر والوں میں سے ایک شخص گیا اور اس نے آپ کو ہدیہ میں ایک سیب بھیجا۔ جب قاصد سیب لے کر آیا تو آپ نے فرمایا اس سیب کی خوشبو کتنی پاکیزہ اور عمدہ ہے، اے غلام! یہ سیب لو اور فلاں کو جاکر ہمارا سلام کہو اور کہو کہ ہمیں تمہارا تحفہ پسند آیا، میں نے عرض کیا ’’اے امیر المومنین! آپ کے چچا زاد اور گھر والوں میں سے ایک شخض نے یہ ہدیہ بھیجا ہے۔ اور آپ کو یہ بات پہنچی ہوئی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہدیہ تناول فرما لیا کرتے تھے البتہ صدقہ کا مال نہ کھایاکرتے تھے۔ تو آپ نے فرمایا: تیرا بھلاہو! عہدرسالت میں ہدیہ ہدیہ ہوتا تھا مگر آج یہ رشوت ہے۔ [2]
آپ کے ورع کی نہایت بلند مثال یہ ہے کہ آپ بیت المال میں جمع کرائی جانے والی خوشبو کو سونگھتے بھی نہ تھے اور جب آپ کے سامنے مشک کی زیادہ مقدار رکھی جاتی تھی تو ناک بند کرلیتے تھے۔ آپ سے عرض کی گیا ’’امیرا لمومنین ! یہ نری خوشبو ہی تو ہے ؟ تو آپ نے فرمایا ۔ مشک کا نفع اس کی خوشبو ہی تو ہوتاہے۔[3]
آپ مسلمانوں کے اموال کو استعمال کرنے سے احتراز فرمایا کرتے تھے حتیٰ کہ بیت المال کا چراغ بھی اس وقت جلایا کرتے تھے جب مسلمانوں کا کوئی کام ہوتا تھا۔ پھرجیسے ہی وہ کام ختم ہو جاتا تو آپ بیت المال کا چراغ بجھالیتے اور اپنا ذاتی چراغ جلا لیتے۔[4]
[1] سیرۃ عمربن لابن عبدالحکم،ص: ۴۰
[2] سیرۃ عمر لا بن الجوزی،ص:۱۹۷
[3] سیرۃ عمر لابن الجوزی،ص:۲۰۰
[4] الآثار الواردۃ فی عمر بن عبدالعزیزفی العقیدۃ:۱/۱۶۴