کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 120
یوں آپ سب کے ساتھ عاجزی سے پیش آتے، کسی کے ساتھ تکبر نہ کرتے، بلکہ خلافت نے آپ میں اور زیادہ تواضع اور شفقت و رحمت پیدا کر دی تھی، منصب خلافت نے آپ کو حق کے آگے سراپا تسلیم و رضا بنادیا تھا۔ چنانچہ آپ لوگوں کے سامنے زمین پر بیٹھ جاتے، اپنے سامنے دربانوں اور محافظوں کو کھڑا کرنا پسند نہ فرماتے۔ اور جو آپ کی بے حد تعظیم کرتا یا خاص آپ کو سلام کرتا اس پر سختی فرماتے۔ خلاصہ یہ ہے کہ آپ کو سواری، لباس، اورکھانے پینے میں کوئی امتیاز پسند نہ تھا۔[1]
تقوی و ورع:
ورع یہ وہ امتیازی صفت ہوتی ہے جو نقصان دہ چیزوں سے انسان کو روکتی ہے تاکہ انسان ان حرام اور مشتبہ امور میں داخل نہ ہو جائے جو انسان کی دنیا وآخرت دونوں کے لیے نقصان دہ ہیں ۔ پس جو شبہات سے بچتا ہے وہ اپنے دین اور عزت وآبرو کو بچا لیتا ہے، اور جو شبہات میں جا پڑتا ہے وہ حرام میں بھی گھس جا تا، جیسے وہ چرواہا جوچراگاہ کے آس پاس جانور چراتا ہے تو بہت جلد اس میں داخل ہوجاتا ہے۔[2]
ورع اصل میں محارم سے رکنے اور ان کے ارتکاب سے بچنے کا نام ہے۔ پھر اس لفظ کو مجاز اً مباح حلال سے بچنے کے معنی میں استعمال کیا جانے لگا۔[3]
سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو رب تعالیٰ نے اس صفت سے بھی نوازا تھا۔ چنانچہ آپ شبہات تک سے بھی بچتے تھے۔ جس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے۔بیان کیا جاتا تھا کہ آپ کھانے میں شہد کو پسند کرتے تھے۔ ایک دن آپ نے گھروالوں سے کھانے میں شہد مانگا۔ اس وقت گھر میں شہد موجود نہ تھا۔پھر کسی موقع پر شہد پیش کردیا گیا۔ آپ نے کھالیا آپ کو وہ شہد بے حد پسند آیا۔ آپ نے اہلیہ سے پوچھا’’یہ شہد کہاں سے آیا تھا؟ اہلیہ نے بتلایا کہ میں نے خادم کو ڈاک کے خچر پر سوار کر کے دو دینار دے کر بھیجا تھا۔ وہ اسے خرید لایا ہے۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا، ’’میں تمہیں قسم دیتا ہوں کہ وہ شہد میرے پاس لے آئو،اہلیہ شہد کی ایک کپی لے آئی۔[4]آ پ نے وہ شہد بیچا تو وہ دو دینار سے زیادہ کا بکا۔ آپ نے دو دینار تو اہلیہ کو واپس کر دیے جبکہ باقی کی رقم بیت المال میں جمع کرادی۔ پھر فرمایا، ’’اب مسلمانوں کے جانور (مراد سرکاری ڈاک کا خچر تھا جو خادم شہد خریدنے کے لیے بازار لے گیا تھا) عمر کی خواہش پوری کرنے کے لیے تھکائے جاتے ہیں ۔‘‘[5]
[1] عمربن عبدالعزیز،ص: ۱۲۳ از عبدالستارشیخ
[2] الفتاوی: ۱/۶۱۵
[3] لسان العرب: ۸/۲۸۸
[4] کتاب میں عُکَّہ کا لفظ آیا ہے۔ یہ بکری کے چمڑے سے بنے برتن کو کہتے ہیں جس میں خاص گھی اور شہد رکھا جاتا ہے۔
[5] اخبار ابی حفص للآجری،ص: ۵۴