کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 119
کسی کام آئے ہوئے تھے کہ اتنے میں چراغ کی بتی بجھ گئی۔ آپ اٹھ کر خود چراغ کو درست کر نے لگے۔ کسی نے کہا: امیر المومنین! یہ کام ہم کردیتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا: ’’بھلا اتنا سا کام کرتے ہوئے مجھے کیا ہوا؟ جب میں چراغ ٹھیک کرنے گیا تو اس وقت بھی عمربن عبدالعزیز تھا اور جب واپس آیا تو تب بھی عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تھا۔‘‘[1] آپ کی تواضع کا یہ واقعہ بھی عبرت آموزہے کہ ایک دن آپ نے اپنی ایک کنیز سے کہا کہ ’’ذرا ہمیں پنکھا تو جھیلو۔‘‘ کنیز پنکھا لے کر جھیلنے لگی۔ ٹھنڈی ہوا لگی توآنکھ لگ گئی۔ آنکھ کھلی تو دیکھا کہ باندی پسینے سے شرابور ہے اور اس کا منہ سرخ ہے اور وہ تھک کر سوچکی تھی۔ آپ نے پنکھا لیا اور اس کو ہوا دینے لگے۔ اتنے میں اس کی بھی آنکھ کھل گئی۔ جب اس نے امیر المومنین کو پنکھا جھیلتے دیکھا تو مارے خوف کے سر پیٹ لیا اور لگی چیخنے کہ غضب خدا کا امیر المومنین اور اس کو پنکھا جھیلیں ۔ آپ نے فرمایا: گھبرائو نہیں تم بھی میرے جیسی ایک انسان ہو جیسے مجھے گرمی لگی تھی ویسے ہی تمہیں بھی لگی۔ تو میں نے چاہا کہ جیسے تم نے مجھے پنکھا جھیلاتھا میں بھی تمہیں پنکھا جھیلوں ۔[2]
بے شک آپ بے حدفصیح وبلیغ اور قادر الکلام تھے لیکن اس کے باوجود کم بولتے تھے کیونکہ آپ اس بات سے ڈرتے تھے کہ آپ اپنی زبان آوری اور قادر الکلامی پر ناز نہ کرنے لگیں ۔ یا لوگ آپ کو بے حد فصیح و بلیغ نہ سمجھنے لگیں ۔ اس لیے آپ خو دبھی یہ کہا کرتے تھے کہ میں خود پسندی اور عجب اور اتراہٹ کے ڈر سے کم بولتا ہوں ۔[3]
ایک دن ایک شخص نے آکر یہ کہا’’اے امیر المومنین ! آپ سے پہلوں کے لیے خلافت زینت تھی جبکہ خلافت کے لیے آپ زینت ہیں ، آپ کی مثال وہی ہے جو شاعر نے اس شعر میں بیان کی ہے…
’’یہ موتی دوسروں کے چہروں کو توحسین بناتے ہیں لیکن اے میرے محبوب! تیرے چہرے کا حسن خود انہیں حسین بنادیتا ہے۔‘‘
یہ سن کر آپ نے اس شخص سے اعراض کر لیا۔[4]
ایک آدمی نے آپ سے یہ کہا: اللہ اسلام کی طرف سے آپ کو جزائے خیر دے تو آپ نے اسے جواب میں یہ کہا نہیں بلکہ اللہ اسلام کو میری طرف سے خیر کا بدلہ دے۔[5]
ایک دفعہ ایک شخص نے بھری مجلس میں آکر صرف آپ کو سلام کرتے ہوئے یہ کہا: ’’اے امیر المومنین! السلام علیک۔ تو آپ نے اسے کہا: اے اللہ کے بندے ! سب کو سلام کرو۔‘‘ [6]
[1] سیرۃ عمر،ص: ۳۹ از ابن عبدالحکم
[2] اخبارابی حفص للآجری،ص: ۸۶
[3] اخبار ابی حفص،ص: ۸۴
[4] سیراعلام النبلاء:۵/۳۶
[5] سیر اعلام النبلاء: ۵/۱۷۴
[6] الطبقات: ۵/۳۸۴