کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 118
اختیار کرو۔ یہاں تک کہ تم میں سے کوئی ایک دوسرے پر فخر نہ کرے اور کوئی دوسرے پر زیادتی نہ کرے۔‘‘[1]
بے شک سیّدنا عمربن عبدالعزیز کی یہ بنیادی اورنمایاں صفات حمیدہ میں سے ایک صفت تھی۔ آپ کے زہد نے آپ کو سراپا تواضع بنادیا تھا۔ کیونکہ اللہ کے لیے زہد اختیار کرنے کی بنیادی شرط تواضع ہے۔[2] اس لیے آپ کی زندگی کا ہر پہلو، ہر شعبہ اور ہرمعاملہ تواضع کی منہ بولتی تصویر تھا۔ اور یہی وہ بنیادی صفت ہے جس کا تقاضا ہر اس قائد، لیڈر، امیر، رہنما، حاکم، سلطان اور خلیفہ سے کیا جاتا ہے جو رب سے ڈرتا ہو، اور اس کے خزانوں اور نعمتوں کا امیدوار ہو اور وہ رعیت سے طاعت و ولاء کا بھی خواستگار ہو۔[3]
آپ کی تواضع پریہی دلیل کافی ہے کہ جب ایک شخص نے آپ کو ان الفاظ کے ساتھ پکارا: اے زمین میں اللہ کے خلیفہ! تو آپ نے اسے برجستہ جواب دیتے ہوئے کہا: ذرا ٹھہرو! میرے پیدا ہونے پر میرے گھر والوں نے میرے لیے عمر نام کو پسند کیاتھا۔اس لیے تم بھی مجھے عمر کہہ کر پکارو کہ یہ نام مجھے زیادہ پسند ہے اور جب میں نے اپنی کنیت رکھنے کا ارادہ کیا تو میں نے اپنی کنیت ابوحفص رکھی، اس لیے تم مجھے اگر ابوحفص کہہ کر پکارو تو مجھے زیادہ اچھا لگے گا۔ اور جب تم لوگوں نے اپنے امور کا مجھے والی بنایا تو میرا نام امیرالمومنین رکھا اس لیے اگرتم مجھے امیر المومنین کہہ کر پکارو تو مجھے یہ زیادہ اچھا لگے گا۔ رہ گیا زمین میں اللہ کا خلیفہ ہونا تو میں ہرگز اس لائق نہیں ۔ زمین میں اللہ کے خلیفہ تو دائود اور سلیمان اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھے یا ان جیسے لوگ (یعنی اللہ کے پیغمبر) تھے۔[4]
دراصل آپ کا اشارہ اس آیت کی طرف تھا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{یٰدَاوٗدُ اِِنَّا جَعَلْنٰکَ خَلِیْفَۃً فِی الْاَرْضِ } (ص: ۲۶)
’’اے دائود ! ہم نے تم کو زمین میں خلیفہ بنایا۔‘‘
یہ آپ کی تواضع ہی تھی کہ آپ نے لوگوں کو اپنے لیے کھڑے ہونے سے منع کیا۔ آپ نے کہا: اے لوگو! اگر تم کھڑے ہوگے تو ہم بھی کھڑے ہوں گے اور اگر تم بیٹھو گے تو ہم بھی بیٹھیں گے۔ بے شک لوگ اپنے خدائے رب العالمین کے لیے کھڑے ہوتے ہیں ۔ آپ اپنے دربانوں سے کہا کرتے تھے : مجھے پہلے سلام نہ کرنا۔ بلکہ تمہیں پہلے سلام ہم کریں گے۔[5]
آپ اس قدر متواضع تھے کہ اپنا چراغ خود ٹھیک کر لیاکرتے تھے۔ ایک رات آپ کے پاس چند لوگ
[1] صحیح مسلم، رقم:۲۸۶۵۔
[2] عمر بن عبدالعزیز،ص:۱۰۵ از زحیلی۔
[3] النموذج الاداری المستخلص من ادارۃ عمر،ص:۱۵۲۔
[4] سیرۃ عمربن عبدالعزیز لابن عبدالحکم،ص: ۴۸
[5] سیرۃ عمر لابن عبدالحکم،ص:۳۴۔۳۵