کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 117
کی صفات سے اس طرح آراستہ کر لیا تھا کہ اس مقام ومرتبہ تک پہنچنے کا ہمارے دور کے مادی ماحول میں سانس لینے والے حکمران تصور بھی نہیں کرسکتے۔ آج ہر چیز پر مادیت کا غلبہ ہے بلکہ آج ہر ایک دوسرے کی دنیا کی ریس میں لگا ہوا ہے، اگر ہمارے اس مادی دور کے آج کے قائدین و زعماء خود کو زہد سے متصف نہیں کرسکتے تو کم از کم طمع اور حرص سے تو خود کو بچا لیں اور اگر ایسا بھی ممکن نہیں تو حلال مال پر ہی اکتفاء کر جائیں اور اپنی دنیاوی خواہشات کو دبانے کی قرار واقعی کو شش کریں تاکہ وہ بھی جنت کی نعمتوں کو حاصل کرنے کے لیے ان باتوں کی طرف رغبت اور مستعدی کا اظہار کریں جن کے پانے کے لیے جناب سیّدناعمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ ہروقت مستعد اور کوشاں رہتے تھے۔ اس بحث کا خاتمہ ہم جناب سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے اس زہد کے واقعہ کے بیان پرکرتے ہیں : ’’ایک دفعہ آپ نے اپنے آزاد کردہ غلام مزاحم سے کہا کہ میرا حج پر جانے کو دل کر رہا ہے۔ اس پر مزاحم نے کہا: ضررو! اور آپ جانے کی تیاری شروع کر دیجیے کیونکہ ہمارے پاس بعض بنی مروان کے سترہ ہزار دینار آئے ہیں ۔ آپ نے کہا ان کو بیت المال میں جمع کرا دو اگر تو یہ حلال کے ہوئے تو ہم ان میں سے بقدر کفایت لے لیں گے اور اگریہ حرام کے ہوئے تو ان پر جو عذاب ملنے والا ہے ان کے نہ لینے سے اس عذاب سے ہماری کفایت ہوجائے گی۔‘‘ مزاحم کہتے ہیں کہ جب آپ نے یہ دیکھا کہ آپ کی یہ بات مجھے ناگوار گزری ہے تو بولے: ’’اے مزاحم ! تیرا بھلاہو۔ تم اللہ کے لیے جو بھی کرو اسے کبھی زیادہ مت سمجھنا‘‘ اللہ نے مجھے ایسا ولولہ انگیز نفس دیا ہے کہ یہ جس منزل کی تمنا کرتا ہے اس کو پاکر ہی دم لیتا ہے مگر پھر اس سے اگلی منزل کا مشتاق ہوجاتا ہے یہاں تک کہ آج میرے نفس کو ایک ایسی منزل کا شوق لگ گیا ہے جس کے بعد کوئی منزل نہیں ،لو کہ وہ منزل جنت ہے۔ ‘‘[1] تواضع و انکساری: ارشاد باری تعالیٰ ہے: {وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ہَوْنًا} (الفرقان:۶۳) ’’اور رحمان کے بندے وہ ہیں جو زمین پر نرمی سے چلتے ہیں ۔‘‘ ابن قیم رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں :یعنی رب کے بندے زمین پر تواضع اختیار کرتے ہوئے سکینہ اور وقار کے ساتھ چلتے ہیں ۔[2] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ عالی شان ہے: ’’رب تعالیٰ نے میری طرف اس بات کی وحی بھیجی ہے کہ تواضع
[1] سیرۃ عمرلابن عبدالحکم،ص:۶۲ [2] مدارج السالکین: ۲/۳۴۰